نمائندہ امت :
حکومت سندھ کی جانب سے امن و امان قائم کرنے کی غرض سے سرنڈر کرنے والے ڈاکوئوں کو عام معافی دینے کیلئے متعارف کرائی گئی پالیسی کو پانچ ہفتے گزر چکے۔ اس کے باوجود اس کے تاحال خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آسکے۔ اس کے علاوہ ڈاکوئوں کی جانب سے اغوا برائے تاوان اور عام شہریوں کو قتل و غارت کا نشانہ بنانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ادھر پنجاب پولیس کے بارہ اہلکاروں کی شہادت میں ملوث شاہو کوش کے پولیس مقابلے میں مارے جانے کے واقعے کو بھی مقامی افراد مشکوک نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ جبکہ گھوٹکی پولیس کی جانب سے شر گینگ کے تین بدنام زمانہ ڈاکوئوں کو مارنے کا دعویٰ جھوٹا ثابت ہونے پر سوشل میڈیا پر تنقید کرنے والوں کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت کارروائی شروع کردی گئی ہے۔ جس سے نہ صرف عام شہریوں بلکہ مقامی صحافیوں میں بھی خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ 22 اکتوبر کو جن 71 ڈاکوئوں نے سرنڈر کیا تھا، ان میں سے 30 سے زائد ڈاکوئوں کو بھی تاحال عدالت میں پیش نہ کیے جانے کی اطلاع ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق حکومت سندھ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں، اعلیٰ وفاقی حکام اور مختلف قبائلی سرداروں سے مشاورت کے بعد صدر مملکت آصف علی زرداری کی تجاویز کی روشنی میں کچے کے علاقے میں امن و امان قائم کرنے کیلئے سرنڈر کرنے والے ڈاکوئوں کو معافی دینے اور عدالتی کارروائی میں ان کے ساتھ نرمی برتنے سے متعلق پالیسی تشکیل دی تھی، جس کی سندھ کابینہ نے 6 اکتوبر کو منظوری دی۔ جس کے بعد پولیس ذرائع یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے تقریباً 283 ڈاکو سرنڈر کرنے کیلئے تیار ہیں۔
اس سلسلے میں 22 اکتوبر کو شکارپور میں منعقدہ ایک تقریب میں 71 ڈاکوئوں نے سرنڈر کیا۔ جس کو تقریباً تین ہفتے گزر چکے ہیں۔ لیکن ابھی تک مزید ڈاکوئوں کے سرنڈر کرنے کی کوئی اطلاع نہیں۔ پولیس ذرائع کا دعویٰ ہے کہ جن 71 ڈاکوئوں نے سرنڈر کیا تھا، ان میں سے اب تک 40 ڈاکوئوں کو عدالت میں پیش کیا گیا ہے اور وہ جیل میں ہیں۔ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی سرنڈر کرنے والوں میں سے مزید تقریباً 31 ڈاکوئوں کو تاحال عدالتوں میں پیش نہیں کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق ان کے خلاف درج مقدمات کی چھان بین کی جارہی ہے۔ جبکہ دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ سرنڈر کرنے سے قبل ہی ان ڈاکوئوں کے مقدمات کی چھان بین کی جاچکی تھی۔
حکومت کا موقف تھا کہ مذکورہ پالیسی نہ صرف کچے میں، بلکہ مختلف اضلاع کے شہری علاقوں میں بھی امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کیلئے اپنائی گئی ہے۔ اس کے برعکس دیکھا جائے تو ابھی بھی ضلع کشمور، گھوٹکی سمیت مختلف علاقوں میں ڈاکو دندناتے پھر رہے ہیں اور اغوا برائے تاوان اور رہزنی کی وارداتیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ڈاکوئوں کے سرنڈر کرنے کے چار دن بعد ہی 26 اکتوبر کو ضلع کشمور کے تھانہ بخشا پور کی حدود سے نندلال ولد سیرو مل کو اغوا کیا گیا، جو تاحال ڈاکوئوں کے قبضے میں ہے۔ 28 اکتوبر کو ضلع کشمور کے سی سیکشن تھانہ کی حدود میں لوٹ مار پر مزاحمت کرنے پر ڈاکوئوں نے شیرباز گولو نامی شہری کو قتل کر دیا۔ اس طرح کندھ کوٹ کے کچے کے علاقے میانی تھانہ کی حدود میں واقع گائوں حضور بخش خالدی میں آٹے کی چکی پر سوئے ہوئے بزرگ شخص عبدالعزیز خالدی بھی مزاحمت پر ڈاکوئوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوگئے۔
گزشتہ ہفتے میڈیا پر ایک بڑی خبر پڑھنے اور دیکھنے کو ملی، جس میں کہا گیا کہ ضلع گھوٹکی کے کچے کے علاقے میں پولیس مقابلے میں پنجاب پولیس کے 12 اہکاروں کو شہید کرنے کی واردات کے مرکزی کردار شاہو کوش سمیت 12 ڈاکو مارے گئے ہیں اور 10 زخمی ہوگئے ہیں۔ جبکہ ایک پولیس اہلکار امجد ڈرگ شہید ہوا ہے۔ اس کے بعد ڈی ایس پی عبدالقادر کا یہ بیان بھی سامنے آیا کہ حملے میں شر گینگ کے سرغنہ رانو شر، ثناء اللہ عرف ثنو شر اور راہب شر بھی مارا جا چکا ہے۔ لیکن اس کے فوراً بعد ہی ان ڈاکوئوں نے بھاری اسلحے کے ساتھ دندناتے ہوئے اپنی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کردی کہ پولیس کا دعویٰ جھوٹا ہے اور وہ زندہ ہیں۔
پولیس کی جانب سے مذکورہ تین بدنام زمانہ ڈاکوئوں کے مارے جانے کی اطلاع جھوٹی ثابت ہونے پر سوشل میڈیا پر گھوٹکی پولیس پر شدید تنقید شروع کی گئی۔ جس کے بعد ایس ایس پی گھوٹکی کے یہ احکامات سامنے آئے کہ قبائلی جھگڑوں اور ڈاکوئوں کے متعلق جو بھی شخص سوشل میڈیا پر پوسٹ ڈالے گا، اس کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں دو افراد کے خلاف مقدمات درج ہوجانے کی بھی اطلاع ہے۔ پولیس کے اس عمل کے بعد کئی افراد نے سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹ ڈیلیٹ کردی ہیں اور اس سے نہ صرف عام شہریوں بلکہ مقامی صحافیوں میں بھی خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے اور پیکا ایکٹ کے تحت مقدمات درج کرنے کا اعلان پولیس نے اس لئے بھی کیا ہے کہ 6 نومبر کو پولیس مقابلے میں جن ڈاکوئوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا جارہا تھا، اس سے متعلق مقامی حلقوں میں یہ بحث عام ہے کہ کوش اور شر قبیلے کے ڈاکو سیلروں قبیلے کے گائوں کے قریب بلوچ ٹرائب کے تڑت ذات سے تعلق رکھنے والے افراد کے ایک قلعہ (کوٹ) میں چھپے ہوئے تھے، جہاں پر سیلروں اور دھوندھو قبائل سے تعلق رکھنے والے مسلح افراد نے حملہ کرکے انہیں مار کر دھوندھو اور سیلروں قبائل کے جن تقریباً سات افراد کو قتل کیا تھا، اس کا بدلہ لے لیا۔ جبکہ سیلروں کے قبیلے کے افراد نے خود یہ ظاہر نہیں کیا کہ انہوں نے یہ حملہ کیا اور کریڈٹ پولیس کو دے دیا۔
جبکہ ڈی آئی جی سکھر نے بروقت دعویٰ کیا تھا کہ رینجرز اور پولیس نے ایک بڑا آپریشن کرکے 10 سے زائد بڑے ڈاکو مار دیئے ہیں اور سرنڈر نہ کرنے والے ڈاکوئوں کے خلاف ایسی ہی کارروائی ہوگی۔
ذرائع نے بتایا کہ گھوٹکی کے علاقے میں سیلروں، دھوندھو، سولنگی اور بھٹو قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد ایک دوسرے کے اتحادی ہیں۔ جبکہ شر اور کوش قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد بھی آپس میں اتحادی ہیں۔ جن میں خصوصاً شر اور کوش گینگ کے ڈاکو شامل ہیں۔ مذکورہ قبائل کچے کے علاقے میں ایک دوسرے کی زرعی زمینوں پر قابض ہونے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔
اس مرتبہ بڑا مسئلہ کچے کے علاقے میں ہزاروں ایکڑ پر محیط اربوں روپے مالیت کے گنے کی فصل ہے۔ کیونکہ ابھی گنے کی کرشنگ کا آغاز ہو رہا ہے۔ اس لئے مذکورہ قبائل ایک دوسرے کے علاقوں کو نوگو ایریا بناکر گنے کی فصل کی کٹائی کرنا چاہتے ہیں۔ جبکہ ایک بااثر صوبائی وزیر کی، جنہوں نے ضلع گھوٹکی کے علاقے اوباڑو میں نئی شوگر مل قائم کی ہے، کوشش ہے کہ مذکورہ کچے کے علاقے کا تمام گنا ان کی مل پر پہنچے اور وہاں کے آبادگاروں کو سب سے قریب شوگر مل وہی پڑتی ہے۔ کچے کے علاقے میں امن و امان قائم کرنے کی ایک معمولی سی وجہ یہ بھی رہی ہے کہ گنے کی ترسیل نہ ہو۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos