امت رپورٹ :
بھارت کی جانب سے دہلی میں کیے جانے والے فالس فلیگ بم دھماکے کی ٹائمنگ پر خود بھارتی تجزیہ کار بھی سوالات اٹھا رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اس واقعہ اور بہار الیکشن کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جبکہ متعدد تبصرہ نگاروں اور بھارتی اپوزیشن ارکان نے لال قلعہ بم دھماکے کو مودی سرکار کا انتخابی فالس فلیگ آپریشن قرار دیا ہے۔ معروف بھارتی صحافی اشوک کمار پانڈے کے بقول بہار الیکشن سے کچھ پہلے لال قلعہ دہلی کے نزدیک بم دھماکے کا واقعہ معنی خیز ہے۔
اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ فالس فلیگ بم دھماکہ کرانے کے لیے مودی سرکار نے اس وقت کا انتخاب کیوں کیا؟ بہار کے ریاستی الیکشن کا آغاز تو چھ نومبر سے ہوگیا تھا۔ لہذا اگر الیکشن کے نتائج پر اثر انداز ہونے کے لیے فالس فلیگ کارروائی کرنی تھی تو چھ نومبر سے پہلے کیوں نہیں کی؟ آئیے ان سوالات کا جواب تلاش کرتے ہیں۔
ڈیڑھ دو مہینے پہلے سے ہی یہ رپورٹس آنی شروع ہوگئی تھیں کہ بہار کے ریاستی الیکشن میں ممکنہ شکست کے پیش نظر مودی سرکار فالس فلیگ دہشت گردی کی منصوبہ بندی کر چکی ہے، تاکہ ہمیشہ کی طرح اس کا الزام پاکستان پر لگا کر جنگی ماحول بنائے اور اس کے نتیجے میں ہندؤوں کا سارا ووٹ اسے ملے اور یوں وہ بہار الیکشن آسانی سے جیت جائے، جہاں اسے اس بار کانٹے کا مقابلہ درپیش ہے۔ تاہم بہار کا الیکشن جیتنے کے لیے مودی سرکار نے اپنے پلان میں تھوڑی تبدیلی کی اور فالس فلیگ کارروائی کا سہارا لینے سے پہلے دھاندلی کے ذریعے اپنا ہدف حاصل کرنے کی کوشش کی، جس میں الیکشن کمیشن انڈیا کی پوری سپورٹ اسے حاصل تھی۔ الیکشن سے پہلے بھارت کی مختلف ریاستوں اور خاص طور پر ہریانہ میں کام کاج کے لیے جانے والے ہزاروں لوگوں کو حکومتی ٹکٹ پر واپس بہار لایا گیا۔ انہیں نقد رقوم بھی دی گئیں، تاکہ ان کے ووٹ بی جے پی اور اس کی اتحادی پارٹیوں کو دلائے جا سکیں۔
اسی طرح ووٹنگ سے عین قبل بہار کے غریب ووٹرز کے ووٹ خریدنے کی کوشش کے طور پر ان میں لاکھوں روپے تقسیم کیے گئے۔ اس کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔ ای ٹی وی بھارت نے بھی اسے رپورٹ کیا اور اس حوالے سے اپنی خبر میں کہا ’’بہار اسمبلی انتخابات کے پہلے مرحلے کی ووٹنگ سے ایک دن پہلے دربھنگہ ضلع کے حیا گھاٹ اسمبلی حلقہ کے سروا گاؤں میں نقدی تقسیم کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ گاؤں والوں نے ایک نوجوان کو پیسے بانٹتے ہوئے پکڑا اور بی جے پی امیدوار رام چندر پرساد ساہ کی انتخابی مہم کا سامان برآمد کیا۔ اسی طرح کے دیگر واقعات کی بہار کے مختلف دیہات اور قصبوں سے بھی اطلاعات ہیں‘‘۔
ووٹرز میں نقد رقوم تقسیم کرنے کے ساتھ ساتھ الیکشن سے پہلے مودی سرکار نے الیکشن کمیشن انڈیا کے ساتھ مل کر ایک اور بڑا گیم بھی کھیلا۔ بہار کی ووٹر لسٹوں سے ایسے دیہات اور قصبوں کے پینسٹھ لاکھ سے زائد ووٹ ہذف کرادئیے گئے، جہاں ان کی حریف کانگریس پارٹی کے انتخابی اتحاد کا ووٹ بینک مضبوط تھا۔ یہ خود بھارتی میڈیا نے رپورٹ کیا ہے۔ واضح رہے کہ ریاست بہار میں مجموعی طور پر سات کروڑ نواسی لاکھ سے زیادہ ووٹر رجسٹرڈ تھے۔ دوسری جانب پہلے مرحلے کی ووٹنگ کے دوران ووٹوں کی پرچیاں ندی نالوں سے ملیں۔ یہ ووٹ بی جے پی کے خلاف ڈالے گئے تھے۔ تاہم اس تمام تر دھاندلی کے باوجود اس بار بہار کے لوگوں نے ووٹ ڈالنے کا ریکارڈ توڑ دیا۔ پہلے مرحلے میں ووٹ ڈالنے کی شرح پینسٹھ فیصد کے قریب رہی، جو دو ہزار بیس کے الیکشن کے پہلے مرحلے کے مقابلے میں نو فیصد زیادہ ہے۔ اس قدر زیادہ ٹرن آؤٹ نے بی جے پی کو پریشان کردیا اور ایسے سروے سامنے آنے لگے کہ بہار میں تبدیلی کی ہوا چل نکلی ہے اور ووٹرز کی اکثریت نے کانگریس کے گریٹر اتحاد کے حق میں ووٹ ڈالے ہیں۔
اس دوران کانگریس کے اتحادی اور بہار کے سابق وزیراعلیٰ کے بیٹے تیجسوی یادو نے انتخابی نتائج سے پہلے ہی ایک زوردار پریس کانفرنس کردی اور دعویٰ کیا کہ اس بار گریٹر الائنس کی حکومت بنے گی اور وہ اٹھارہ نومبر کو وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف لیں گے۔ اس دعوے نے پہلے سے فکرمند بی جے پی کی تشویش میں مزید اضافہ کردیا اور اسے بہار کے الیکشن اپنے ہاتھوں سے نکلتے دکھائی دیئے۔ چنانچہ پلان بی یعنی فالس فلیگ کارروائی کے آپشن پر عمل درآمد کا فیصلہ کیا گیا۔ یوں بہار الیکشن کے دوسرے مرحلے سے صرف ایک روز پہلے مودی سرکار نے نئی دہلی لال قلعہ کے نزدیک بم دھماکہ کرادیا۔ اس فالس فلیگ کارروائی سے دو مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ایک یہ کہ ہمیشہ کی طرح اس کا ملبہ پاکستان پر ڈال کر ہندو قوم پرستی کو استعمال کیا جائے اور دوسرے مرحلے کی ووٹنگ میں زیادہ سے زیادہ ہندو ووٹ حاصل کیا جا سکے۔ دوسرا یہ کہ الیکشن میں دھاندلی کے خلاف اپوزیشن نے جو تحریک شروع کی ہے، اس سے توجہ ہٹائی جا سکے۔ دھماکے کے فوری بعد اس قسم کے خیالات کا اظہار بھارتی تجزیہ کار پروفیسر مہندر ناتھ نے بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا ’’بہار کے الیکشن اور اس میں مودی سرکار کی جانب سے کی جانے والی دھاندلی کو جو کوریج ملنی تھی، اب نہیں ملے گی‘‘۔
یاد رہے کہ لوک سبھا میں کانگریس کے ممبر پارلیمنٹ کے سی وینو گوپال نے دو دن پہلے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر پوسٹ کی تھی کہ ’’ووٹ چور گدی چھوڑ‘‘ دستخطی مہم کا ریاستی سطح پر آغاز ہو گیا ہے۔ مختلف ریاستوں میں جمع کیے گئے دستخط اب نئی دہلی کو بھیجے جا رہے ہیں، تاکہ صدر جمہوریہ ہند کو پیش کیے جائیں۔ پانچ کروڑ سے زیادہ شہریوں نے ڈھٹائی سے ووٹ چوری کے خلاف دستخط کیے ہیں۔ ہندوستان کی جمہوریت اور انتخابی سالمیت کے تحفظ کا مطالبہ کیا ہے۔ بار بار ثبوتوں اور عوامی غم و غصے کے باوجود، بی جے پی کے زیر کنٹرول الیکشن کمیشن انڈیا آزادانہ اور منصفانہ انتخابات پر بی جے پی کے منظم حملے میں ایک فعال ساتھی کے طور پر کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسے معمول پر نہیں لایا جا سکتا اور نہ ہی ہو گا۔ تحریک اب فیز ٹو میں داخل ہو رہی ہے۔ ہم بھارت کے کونے کونے میں اس دھاندلی کو بے نقاب کریں گے‘‘۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بہار کے الیکشن مودی سرکار کے لیے اتنی اہمیت کیوں رکھتے ہیں؟ اس حوالے سے بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں معروف سیاسی تجزیہ کار آرتی جے رتھ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پورے شمالی انڈیا میں بہار واحد ریاست ہے، جہاں بی جے پی اپنے زور پر انتخاب نہیں جیت سکی۔ مودی کی ایسی شبیہ بن گئی ہے کہ ریاستی انتخاب بھی ان ہی کے نام پر لڑے اور جیتے جاتے ہیں، لیکن بہار میں گزشتہ دس برس میں مودی کا جادو چل نہیں سکا۔ بہار میں حکومت بنانے کے لیے انہیں ہمیشہ مقامی سیاسی جماعت ’جنتا دل یونائٹیڈ‘ (جے ڈی یو) کے رہنما نتیش کمار کی مدد لینی پڑی۔
نتیش کمار نے ریاست میں بی جے پی کے کسی رہنما کو اس حد تک اٹھنے نہیں دیا کہ وہ ان کے لیے چیلنج بن جائے۔ لیکن اب جب نتیش کمار کی صحت کے بارے میں سوالات اٹھ رہے ہیں تو مودی کو بہار میں جیتے کا موقع نظر آ رہا ہے۔ آرتی مزید کہتی ہیں کہ مودی کے لیے بہار کا الیکشن اس لیے بھی اہم ہے کہ ’امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ان کا جو مسئلہ چل رہا ہے، جس میں ٹرمپ بار بار جنگ بندی کروانے کی باتیں دہراتے رہتے ہیں۔ ان سب باتوں سے ملک کے اندر اپنے مداحوں کے مابین مودی کی جو ساکھ تھی، اسے بہت حد تک نقصان پہنچا۔ وہ یہ امید کر رہے ہیں کہ اگروہ بہار کا الیکشن جیت جاتے ہیں تو انہیں اپنا امیج بحال کرنے میں مدد ملے گی۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos