امریکی صدارتی دفتر وائٹ ہائوس گذشتہ دنوں ایک اہم اجلاس کامیزبان تھا ،اس معاملے نے عالمی سطح پرقیاس آرائیوں کو جنم دیاہے اورخصوصاً بھارت میں کھلبلی مچادی ۔
امریکہ ،قزاخستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان،ان چھ ملکوں کااتحاد 2015 میں قائم ہواتھا لیکن پہلی باراس کی سالانہ میٹنگ وائٹ ہائوس میں ہوئی ہے اورگمان کیا جارہاہے کہ اس انعقاد کے پیچھے پاکستان تھا ۔اسی تناظرمیں یہ بھی کہاجارہاہے کہ پاکستان کو مشرق وسطیٰ میں کوئی بڑاکردار ملنے والاہے۔
نومبر کے پہلے ہفتے میں سی فائیو پلس ون اجلاس کے وائٹ ہائوس میں انعقاد کو عالمی ذرائع ابلاغ بھی قابل ذکر قراردے رہے ہیں۔البتہ بھارت سے اس بارے میں خاص تشویش اور حیرت کا اظہار ہواہے۔
بھارتی صحافی پراوین ساہنی نے ایکس پر لکھاہے کہ میں حیران ہوں6 نومبر کو وائٹ ہاؤس میں ہونے والے C-5 +1 اجلاس میں پاکستان نے کیا کردار ادا کیا؟ صدارتی سطح پر 10 سال میں یہ پہلی میٹنگ تھی ۔
بھارتی تجزیہ کار نے مغربی اور وسطی ایشیا میں پاکستان کے لیے ایک بڑے کردار کی طرف اشارہ کیا ہے اور سی سکس پلس ون اصطلاح استعمال کی ہے۔
ان کے مطابق چونکہ پاکستان کے آذربائیجان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، اس لیے یہ C-6+1 آئیڈیا کے پیچھے ہو سکتا ہے۔وائٹ ہاؤس میں سنٹرل ایشیائی ملکوں کی میٹنگ سے بھارت میں امریکی سفیر سرجیو گور کی جنوبی اور وسطی ایشیا کے لیے خصوصی ایلچی کے طور پر وسیع ذمہ داری کی وضاحت ہوتی ہے۔
یہ سی فائیوپلس ون کی دسویں میٹنگ تھی اور پہلا موقع تھا کہ سالانہ سربراہی اجلاس امریکی دارالحکومت میں ہوا، اور صرف دوسری بار امریکی صدر نے خود نمائندگی کی۔2023 میں، جو بائیڈن نےاقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر وسطی ایشیائی رہنماؤں کے ساتھ بھی ایک میٹنگ کی تھی ۔
جیو پولیٹیکل مانیٹر کے مطابق حالیہ سی فائیوپلس ون اجلاس کے نتیجے میں 130 بلین ڈالر سے زیادہ مالیت کے تجارتی وعدے ہوئے ان میںکان کنی اور ہوا بازی شامل ہیں۔ اجلاس نے اقتصادی تعاون پر ایک باضابطہ مشترکہ بیان بھی جاری کیا، جس میں توانائی، تعلیم، تجارت اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے منصوبوں کا خاکہ پیش کیا گیا۔ امریکی ترجیحات معدنیات، علاقائی نقل و حمل، اور سیکورٹی کوآرڈینیشن پر مرکوز تھیں۔
کیا اسلام آباد مشرق وسطیٰ میں کوئی غیر معمولی ذمہ داری نبھانے جارہاہے، اس نکتے پر سیاسی اور سفارتی ماہرین غورکررہے ہیں۔اردن کے شاہ عبداللہ کا دوروزہ دورہ پاکستان بھی سفارتی حلقوں میں اہم سمجھاجارہاہے۔حالیہ پاک،سعودی معاہدہ بھی خطے میں ایک بڑی پیش رفت کے طورپر دیکھاگیاتھا۔افغانستان کے ساتھ کشیدگی میں ترکیہ اور قطر نے پوری تن دہی اور محنت سے ثالثی کے لیے کوششیں کیں ۔تہران کی طرف سے بھی اس بارے میں پیش کش ہوئی۔
پاکستان سمیت کئی اہم اسلامی ممالک نے نئی امریکی قرارداد کی حمایت کی ہے جس میں غزہ کے لیے بین الاقوامی فورس کی تعیناتی اور امن بحالی کا نیا لائحہ عمل تجویز کیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز سے جاری مشترکہ بیان میں پاکستان، قطر، مصر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، اردن، ترکیہ اور امریکا شامل ہیں جنہوں نے اس سلسلے میں تعاون کا اعلان کیا ہے۔
مشترکہ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ سلامتی کونسل میں زیرِ غور یہ قرارداد 29 ستمبر کو سامنے آنے والے جامع امن منصوبے کا حصہ ہے ، جس کی شرم الشیخ میں توثیق کی گئی تھی۔ ان ممالک نے واضح کیا کہ یہ عمل فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت اور ایک مستقل ریاست کے قیام کی بنیاد فراہم کرے گا اور یہی وجہ ہے کہ عالمی اتفاقِ رائے کے ساتھ اس قرارداد کی منظوری ضروری ہے۔
اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ غزہ منصوبہ نہ صرف فلسطین اور اسرائیل کے درمیان بلکہ پورے خطے میں دیرپا امن اور استحکام کا راستہ کھول سکتا ہے۔ ساتھ ہی یہ امید بھی ظاہر کی گئی ہے کہ سلامتی کونسل جلد اس قرارداد کی منظوری دے گی۔
امریکا نے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ غزہ میںجنگ بندی کو مستحکم کرنے کے لیے اس مسودے کی منظوری ضروری ہے، تاہم عین اسی وقت روس نے ایک علیحدہ قرارداد پیش کرکے امریکی کوشش کو چیلنج کیاتاہم سفارتی ذرائع کے مطابق روس اور چین، ممکن ہے کہ دونوں غیر حاضر رہیں، مگر وہ ویٹو استعمال نہیں کریں گے۔
قرارداد کا مسودہ پیر کو سلامتی کونسل میں رائے دہی کے لیے پیش ہونے کی توقع ہے اور اگر ،کسی ویٹوکے بغیر، اسے 9 ووٹ ملے تویہ منظور ہوجائے گا۔
یہاں شرم الشیخ کی اس تقریب کو یادرکھناضروری ہے جو غزہ منصوبے کے باضابطہ اجرا کا اعلان کرنے کے لیےمنعقد ہوئی تھی، جس میں صرف امریکی صدر ٹرمپ نے خطاب کیااور ان کے علاوہ پاکستانی وزیراعظم شہبازشریف کو مائیک پر آنے کا موقع دیاگیاتھا۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos