وزارت امربالمعروف ونہی عن المنکرافغانستان۔ فائل فوٹو

افغانستان میں لوگ عاملوں، جادوگروں پر یقین کیوں کر رہے ہیں؟

افغانستان ایک ایسا ملک ہے جس پر گہری اسلامی چھاپ ہے۔اس کے بارے میں یہ بھی کہاجاتاہے کہ وہاں کے لوگ بنیادپرست اور انتہاپسنداسلام پر عمل پیراہیں۔برعظیم پاک وہندکی طرح افغانستان میں پیری فقیری کا رواج نہیں۔وہاں عرس نہیں منائے جاتے۔یہ ایک جفاکش قوم ہے ، جنگ وجدل کی ماہر ہے لیکن حیران کن طورپر اس جیسے سخت گیر مسلمان معاشرے کے لوگ بھی تعویذ گنڈے، جادو اور عملیات کی طرف مائل ہورہے ہیں۔

افغان میڈیا کے مطابق ملک میں شدید غربت ، کسمپرسی اور بڑھتی مشکلات اس کی بڑی وجہ ہیں۔

وزارت امربالمعروف ونہی عن المنکر کے مطابق ان سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے سیکڑوں لوگوں کو گرفتار کیا گیاہے جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔گزشتہ سال افغانستان بھرسے تعویذ ات اور جادوٹونے میں ملوث 935 افرادگرفتارہوئے، جن میں سے 125 کا تعلق تخار، 117 کابل اور 111 کا بغلان صوبے سے ہے۔ انہیں تفتیشی اداروں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

قندوز میں امام صاحب ڈسٹرکٹ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے رواں سال کے گزشتہ چھ ماہ میں اس نوعیت کے مختلف جرائم کے الزام میں 250 افراد کو گرفتار کیا ہے۔

2023 اکتوبرمیں بھی افغان میڈیانے اطلاع دی تھی کہ 200کے قریب ساحروں کو پکڑاگیاتھا ۔67 کاتعلق دارالحکومت کابل سے بتایاگیا۔ان میں بھی خواتین شامل تھیں۔

افغانستان میںکئی لوگ جنات پریقین رکھتے اور سفلی قوتوں سے ڈرتے ہیں ،ایسے عقائدانہیں تحفظ کے لیے بھی ساحرانہ افعال کی طرف لے جاتے ہیں۔ دیکھاگیاہے کہ بدروحوں یا شرسے بچنے کے لیے بھی جادو کا سہارالیا جاتاہے۔

ماہرین کا کہناہے کہ ایسے اعمال اور عقائدکے منفی نتائج ہوتے ہیں ۔جادوٹونا مسائل کوبڑھادیتاہے اور سماجی طورپر اس کے سنگین اثرات ہوتے ہیں۔بدقسمتی اور کسی قسم کے نقصان کا ذمہ دار حالات یا سیاسی عوامل کے بجائے جادو کوٹھہرایا جاتاہے جس کے نیتجے میں گھریلو تنائو اور جھگڑے بڑھ جاتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق حاسدانہ سوچ بھی سفلی قوتوں سے کام لینے کے پیچھےکارفرماہوتی ہے جو گھریلو زندگی کو تباہ کرنے کا باعث بنتی ہے۔

افغانستان میں یہ سلسلہ زیادہ تر دیہی علاقوں میں پھیل رہاہے۔2 سال قبل حکومت نے اس پر پابندی عائد کرتے ہوئے9اگست 2023کو باقاعدہ حکم نامہ جاری کیا گیا۔اکتوبر2023 میں حکام نے بتایاتھاکہ مختلف صوبوں میں، خواتین سمیت 100 سے زیادہ جادوگروں کو گرفتار کیا گیا اور صرف کابل سے 67 افراد پکڑے گئے۔

تحقیق سے پتاچلاہے کہ جادوٹونے میں زیادہ تر وہ لوگ پڑتے ہیں جنہیں بے روزگاری، بیماری اور مالی مشکلات کاسامناہو۔ایسے لوگ عاملوں کی دھوکہ دہی کا آسان شکار بن جاتے ہیں۔

افغانستان سمیت کئی جنوبی ایشیائی ملکوں میں یہ ایک عام صورت حال ہے کہ خواتین اپنی اولاد کے بہتر مستقبل کی خاطر تعویذات پربھروسہ کرتی ہیں۔بعض عامل ہرقسم کی بیماریوں کے ساتھ ساتھ بانجھ پن اوربے اولادی کے علاج کا جھانسہ بھی دیتے ہیں ۔جس کی وجہ سے عورتیں زیادہ تعدادمیں ان پیشہ ور جعلی آستانوں کا رخ کرتی ہیں۔

طبی ماہرین کا کہناہے کہ ذہنی صحت کا تحفظ نہ ہونے سے لوگ ضعیف الاعتقادی کا شکارہورہے ہیں۔ ایک عامل نے افغان میڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ شدید ڈپریشن میں مبتلالوگ بھی آتے ہیں، ہم ان کے لیے دعا کرتے ہیں اور انھیں امید دلاتے ہیں، ان میں سے کچھ کہتے ہیں کہ ان کانصیب خراب ہے یا کالے جادو سے متاثر ہے، ہم ان کے لیے بھی دعا کرتے ہیں۔اس کا مزید کہناتھاکہ میرے پاس زیادہ تر خواتین آتی ہیں،تاہم حکومت کی طرف سے سختی ہونے کے بعد سائلین کی تعداد کم ہوگئی اورلوگوں نے خفیہ طورپر مجھ سے رابطہ کرناشروع کردیا۔

حکومت کی طرف سے کریک ڈائون کے بعد بہت سے عامل زیرزمین چلے گئے تھے۔تاہم شمالی سمنگان میں حکام کا کہنا ہے کہ ایک شخص، جسے پہلے عملیات چھوڑنے کا تحریری وعدہ کرنے پرمعافی ملی تھی، پریکٹس دوبارہ شروع کرنے پرپھرگرفتار کر لیا گیا ہے۔اس کے قبضے سے تعویذات کی دستاویزات اور جھاڑپھونک میں استعمال ہونے والی اشیا برآمدہوئیں۔

افغان خبررساں ادارے پژواک نے بتایا ہے کہ تقریباً ایک سال قبل اس شخص کو اسلامی شریعت کے منافی کاموں میں ملوث ہونے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ پشیمانی کے اظہار، توبہ کرنے اور اس عمل کو چھوڑنے کے تحریری عہد پر دستخط کرنے کے بعد اسے رہا کیاگیا تھالیکن اس نے ایک بار پھر غیر اسلامی حرکات شروع کردیں۔

حکام کے مطابق یہ شخص غیر تعلیم یافتہ ہے، اوروہ لوگوں کے عقائد کاناجائز فائدہ اٹھارہاتھا۔ تحقیقات کے بعد اسے قانونی کارروائی کے لیے متعلقہ حکام کے حوالے کر دیا گیا۔
انتظامی مشنیری نے تعویذات اور عملیات کو روکنااولین ترجیح قراردیاہے۔

علمانے جھاڑپھونک اور سحر سے دامن بچانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دین میں ان چیزوں کی گنجائش نہیں۔افغان علماکے مطابق بہت سے لوگ،دینی تعلیمات کے بارے میں کم علمی کی وجہ سے، عاملوںکے پاس جاتے ہیں، حالانکہ اسلام میں جادو ٹونا منع ہے۔

طالبان کی طرف سےصنفی جبر ، بشمول اعلیٰ تعلیم اورملازمتوں پر پابندی جیسے عوامل نے خواتین میں ڈپریشن اور توہمات پرمبنی سوچ پیداکی ہے۔بہت سی خواتین کو لگتاہے کہ ان پر سایہ ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت افغان خواتین فیصلہ سازی اور مواقع تک رسائی کے لیے اپنی مکمل صلاحیتوں کے صرف 17 فیصد سے ہی کام لے رہی ہیں جو عالمگیر اوسط کے ایک تہائی سے بھی کم ہے۔ تقریباً 80 فیصد نوجوان خواتین کو تعلیم، روزگار اور تربیت کے مواقع سے محروم کر دیا گیا ہے جو کہ مردوں کے مقابلے میں چار گنا بڑی تعداد ہے۔

روزگار کی عدم فراہمی اور طبی سہولیات کی کمی بھی ان حالات کو بڑھاوادے رہی ہے۔2021میں جب طالبان کا قبضہ ہوا اس وقت بھی ایسی اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ کچھ ساحروں یاعاملوں نے جادو کے زور سے ان کا زور توڑنے کی کوششیں کی تھیں۔یہ امر افغانستان میں فرسودہ عقائد اور نئے چیلنجزمیں کشمکش کی بھی نشاندہی کرتی ہے۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔