اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے لکھنؤ کو ’کری ایٹو سٹی آف گیسٹرونومی‘ کا خطاب دیا ہے، جو اس شہر کے اودھ اور مغلائی کھانوں کی نزاکت، خوشبو اور تاریخی گہرائی کی عالمی سطح پر توثیق ہے۔
بھارت کے شہر حیدرآباد کے بعد اب لکھنؤ کو بھی یونیسکو کے تخلیقی شہروں کے نیٹ ورک میں شامل کر لیا گیا ہے۔
یہ اعزاز لکھنؤ کو اس کی منفرد کھانوں کی روایت کی بنیاد پر دیا گیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ لکھنؤ، حیدرآباد اور کراچی کے کھانوں کی جڑیں ایک ہی تہذیبی تنے سے نکلتی ہیں۔
حیدرآباد کو بھی 2019ء میں یہی اعزاز ملا تھا۔
کراچی کی مشہور اسٹریٹ فوڈ کی بنیاد 1947ءمیں ہجرت کے دوران متحدہ ہندوستان کے اتر پردیش، خاص طور پر لکھنؤ، کانپور اور رام پور سے آنے والے خاندانوں نے رکھی تھی۔
سینئر شیف عباس علی کہتے ہیں کہ ہجرت کے بعد کراچی کا ذائقہ مکمل طور پر بدل گیا۔ جو کھانے آج کراچی کی شناخت کہلاتے ہیں، وہ دراصل لکھنؤ اور رام پور کی وراثت ہیں۔
بھارتی کرکٹر ایم ایس دھونی پاکستانی نہاری کے دلدادہ رہے ہیں، جبکہ سارو گنگولی کراچی کی اسٹریٹ فوڈ کے لیے راتوں کو ہوٹلوں سے نکلتے دیکھے گئے۔ اسی طرح پاکستان کے وسیم اکرم حیدرآبادی کھانوں کے مداح ہیں۔
سینئر پاکستانی صحافی مزار عباس 2005ء میں بھارتی نائب وزیراعظم ایل کے اڈوانی کے دورۂ پاکستان کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وفد کی گفتگو میں سندھی کھانے سب سے دلچسپ موضوع تھے۔
اودھ کے نوابوں کے دور میں کھانا پکانا ایک اعلیٰ فن اور سائنسی عمل سمجھا جاتا تھا۔
گوشت کو نرم کرنے کے طریقے، مصالحوں کی آمیزش اور دم کی تکنیک ایسی تھیں، جنہیں نزاکت اور تہذیب کی علامت ماناگیا۔
لکھنؤ کے داستان گو اور فوڈ ہسٹورین ہماشو باجپئی کے مطابق غیر منقسم ہندوستان میں اگر کہیں کھانوں پر سب سے زیادہ باریک بینی سے کام ہوا تو وہ لکھنؤ تھا۔
یونیسکو کا اعزاز ملتے ہی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے مبارکباد دیتے ہوئے ایک سبزی خور تھالی کی تصویر شیئر کی، اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اسے ریاست کی ویجی ٹیرین ڈشوں سے جوڑ دیا۔
لکھنؤ کے شہریوں اورغذائی ماہرین کی طرف سے اس پرحیرت کا اظہار کیا گیاکیونکہ یونیسکو نے واضح طور پر لکھنؤ کی غیر سبزی خور مغلائی اور اودھی روایت، خاص طور پر کباب، نہاری، کورما اور بریانی کو اس اعزاز کی بنیاد قرار دیا ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos