یوکرائن میں چار برسوں سے جاری جنگ ختم کرنے کیلئے امریکی صدر ٹرمپ کا منصوبہ لیک ہوگیا ہے جس میں روسی کی مرضی کی شرائط شامل ہیں۔
امریکی مسودے کے مطابق یوکرین کی افواج کی تعداد 8 لاکھ 80 ہزار سے کم کر کے 6 لاکھ تک محدود کرنے کی تجویز ہے، جب کہ اہم علاقے روس کے حوالے کیے جا رہے ہیں۔
یوکرین سے کہا گیا ہے کہ وہ کے اس حصے سے فوجیں نکال لے جو روس طویل کوششوں کے بعد بھی جنگ میں حاصل نہیں کر سکا۔ یہ علاقہ، جسے “فورٹرس بیلٹ” کہا جاتا ہے، سلوویانسک، کراماتورسک اور دروشکیفکا جیسے اہم شہروں پر مشتمل ہے، جہاں تقریباً ڈھائی لاکھ شہری رہتے ہیں۔
مسودے میں 28 نکات شامل ہیں، جن میں کچھ کو یوکرین کے لیے قابلِ قبول قرار دیا جارہا ہے، جب کہ کئی نکات مبہم یا کیف کے لیے ناقابلِ قبول ہیں۔
ان نکات میں یوکرین کی خودمختاری کی "ضمانت” اور روس، یوکرین اور یورپ کے درمیان ’’جامع عدم جارحیت معاہدہ‘‘ شامل ہے۔ تاہم سکیورٹی ضمانتوں کے حوالے سے کوئی تفصیلات نہیں دی گئیں، جو یوکرین کی دیرینہ مطالبات میں شامل ہیں۔
پلان میں کہا گیا ہے کہ کسی نئی روسی جارحیت کی صورت میں ’’مربوط فوجی ردعمل‘‘ دیا جائے گا، اور روس کے خلاف تمام پابندیاں دوبارہ لاگو ہوں گی۔ لیکن یوکرین کے نمائندوں کے مطابق یہ ضمانتیں نیٹو طرز کی اجتماعی دفاعی شق کے قریب بھی نہیں۔ نیٹو میں اتحاد کے رکن کسی ایک ملک پر حملہ تمام ممالک پر حملہ تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں یوکرین کو کوئی ایسی ضمانت نہیں دی جا رہی۔
امریکی مسودے میں مشرقی دونیتسک کے یوکرینی کنٹرول والے حصے کو ’’غیر فوجی زون‘‘ قرار دے کر روس کی ملکیت تسلیم کرنے کی تجویز شامل ہے، اگرچہ روسی فوج اس زون میں داخل نہیں ہوگی۔
یوکرین کی مندوب کرسٹینا ہیویوشن نے اقوام متحدہ میں کہا کہ کیف اپنے علاقوں کو روسی کنٹرول ماننے پر کبھی آمادہ نہیں ہوگا، نہ ہی وہ اپنی فوج کی تعداد یا دفاعی صلاحیت میں کمی پر راضی ہوگا۔
مسودے کے مطابق کریمیا، لوہانسک اور دونیتسک کو ’’ڈی فیکٹو‘‘ روسی قرار دینے کی تجویز بھی شامل ہے، جسے قانونی طور پر تسلیم کرنا یوکرین کے آئین کے خلاف ہے، تاہم الفاظ میں نرمی سے اسے ایک مبہم صورت میں پیش کیا گیا ہے۔
منصوبے میں یوکرین کے نیٹو میں شمولیت کو مستقل طور پر مسترد کرنے اور اس شق کو نیٹو کے قوانین میں شامل کرنے کی تجویز ہے، جب کہ یورپی یونین میں شمولیت کے لیے ’’ترجیحی رسائی‘‘ دینے کا عندیہ دیا گیا ہے۔
مسودے میں روس کو عالمی معیشت میں دوبارہ شامل کرنے، اور مستقبل میں جی-8 میں واپسی کی تجاویز بھی موجود ہیں۔ تاہم مغربی ممالک میں اس امکان کو فی الحال بعید تصور کیا جا رہا ہے۔
کم از کم 100 ارب ڈالر کے روسی منجمد اثاثے یوکرین کی تعمیرِ نو پر لگانے اور اس کے منافع کا نصف امریکی حکومت کو دینے کی تجویز بھی سامنے آئی ہے، جب کہ یورپی یونین کو بھی مزید 100 ارب ڈالر فراہم کرنے کا کہا گیا ہے۔
کیا یہ ٹرمپ کا حتمی منصوبہ ہے؟
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے مطابق منصوبے پر ابھی مزید کام باقی ہے۔ ٹرمپ نے بھی کہا کہ یہ کیف کے لیے ’’آخری پیشکش‘‘ نہیں۔ روس نے محتاط ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ مسودہ ’’امن کی بنیاد‘‘ بن سکتا ہے۔
تاہم کئی تجزیہ کاروں کے مطابق یوکرینی علاقوں کا روس کو حوالے کیے جانے کی تجویز کریملن کے مؤقف کے زیادہ قریب ہے۔
لیک مسودے سے یہ تاثر بھی مل رہا ہے کہ یہ امن منصوبہ یوکرین کے مقابلے میں روس کے لیے زیادہ سودمند ہو سکتا ہے، جب کہ کیف کی سرخ لکیریں واضح ہیں: کوئی علاقہ نہیں دیا جائے گا، اور اپنی دفاعی آزادی پر سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos