امت رپورٹ :
عمران خان نے سہیل آفریدی کو جس مقصد کے لئے وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا بنوایا ہے، اس پلان پر عمل درآمد کی تیاری کی جارہی ہے۔ یہ پلان ایک بار پھر اسلام آباد پر لشکر کشی سے متعلق ہے۔ تاہم اب اس نوعیت کی کوئی بھی مہم جوئی، حتمی ریڈ لائن قرار دے دی گئی ہے۔
اسلام آباد میں موجود باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے 9 مئی یا چھبیس نومبر جیسے واقعے کو دہرایا تو ہر قسم کی مصلحت اندیشی بالائے طاق رکھتے ہوئے پہلی فرصت میں پی ٹی آئی پر پاپندی لگا دی جائے گی۔ کیونکہ اب ریاست ’’سافٹ اسٹیٹ‘‘ کا لبادہ اتار کر ’’ہارڈ اسٹیٹ‘‘ کی پالیسی اپنا چکی ہے۔ لہذا کسی قسم کے فساد کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
اس سلسلے میں ذرائع نے ٹی ایل پی پر پابندی کی مثال بھی پیش کی اور کہا کہ، یہ پاپندی نا صرف ہارڈ اسٹیٹ کی پالیسی پر عمل درآمد کی عکاس ہے۔ بلکہ یہ ان دیگر کے لیے بھی ایک پیغام ہے جو فساد کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق چونکہ ایک بار پھر پی ٹی آئی، عمران خان کی رہائی کے لیے اسلام آباد پر چڑھائی کا پلان بنا رہی ہے اور اس لشکر کی قیادت وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کرنا چاہتے ہیں۔ چناں چہ ایسی صورت میں خیبرپختونخوا میں گورنر راج یا ایمرجنسی کا امکان بڑھ جائے گا۔ اس منصوبے پر حکومت طویل عرصے سے غور کررہی ہے، لیکن بوجوہ اس کو اب تک عملی جامہ نہیں پہنایا ہے۔ تاہم نئے وزیر اعلیٰ کی قیادت میں اسلام آباد پر ممکنہ لشکر کشی، حکومت کو اپنے منصوبے پر عمل درآمد کا ٹھوس جواز فراہم کردے گی۔
ذرائع کے بقول خیبرپختونخوا دہشت گردی اور امن و امان کے بدترین بحران سے دو چار ہے۔ جب کہ صوبے کی حکومت کی ترجیحات امن کا قیام نہیں، کچھ اور ہیں۔ ایسے میں جب صوبے کو اندرونی اور بیرونی خطرات کا سامنا ہو اور اس سے نمٹنا صوبائی حکومت کے بس سے باہر ہو جائے تو آئین پاکستان ہی صوبے کے معاملات وفاق کو سنبھالنے کی اجازت دیتا ہے، جس کے تحت ایمرجنسی یا گورنر راج لگایا جاسکتا ہے۔ اور یہ کوئی غیر قانونی عمل نہیں۔ ماضی قریب میں دیکھا جائے تو اپنے دور حکومت میں پیپلز پارٹی نے پنجاب میں گورنر راج لگایا تھا اور شہباز شریف کی حکومت کو چلتا کیا تھا۔ حالانکہ وہاں موجودہ خیبرپختونخوا جیسے حالات بھی نہیں تھے۔ تاہم اس وقت کے مقابلے میں اب کسی صوبے میں گورنر راج لگانا آسان نہیں، جب ذرائع کی توجہ اس طرف دلائی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ جب حکومت کچھ کرنے کی ٹھان لے تو پھر ہو ہی جاتا ہے۔
واضح رہے کہ اٹھارھویں آئینی ترمیم کے بعد صوبے میں گورنر راج نافذ کرنے کے صدر کے اختیارات محدود ہوگئے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل دو سو بتیس کی شق نمبر ایک کے مطابق اگر صدر مطمئن ہو کہ ایسی ہنگامی صورتحال موجود ہے، جس میں پاکستان یا اس کے کسی حصے کی سلامتی کو جنگ یا بیرونی جارحیت کی وجہ سے یا داخلی خلفشار کی بنا پر ایسا خطرہ لاحق ہے جس پر قابو پانا کسی صوبائی حکومت کے اختیارسے باہر ہے، تو ایمرجنسی کا اعلان کرسکے گا۔ مگر شرط یہ ہے کہ ہنگامی صورت حال نافذ کرنے کے لیے متعلقہ صوبائی اسمبلی سے ایک قرارداد کی ضرورت ہوگی۔ چوں کہ اس وقت خیبرپختونخوا اسمبلی میں پی ٹی آئی کو دو تہائی اکثریت حاصل ہے، لہذا وہاں سے اس نوعیت کی قرارداد منظور ہونے کا کوئی امکان نہیں۔
تاہم آئین کے اسی آرٹیکل میں ساتھ ہی دوسرا راستہ بھی بتایا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر صدر اپنے طور پر کسی صوبے میں ایمرجنسی کا اعلان کرتا ہے تو اس کی منظوری کے لیے دس دن کے اندر پارلیمان کے دونوں ایوانوں، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں الگ الگ پیش کرنا ہوگا۔ اس وقت حکومت دونوں ایوانوں سے اس نوعیت کی قرارداد منظور کرانے کی پوزیشن میں ہے۔ لہذا اگر وفاقی حکومت خیبرپختونخوا میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو ممکنہ طور پر دوسرا راستہ ہی اختیار کرے گی۔ اسی طرح آرٹیکل دو سو تینتیس کی شق دو، صدر کی جانب سے اپنے طور پر کسی صوبے میں لگائی جانے والی ایمرجنسی کو تحفظ بھی فراہم کرتی ہے کہ اس دوران کوئی بھی بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کو رونا لے کر عدالت کا رخ اختیار نہیں کرسکے گا۔
یہ شق کہتی ہے کہ جس دوران ایمرجنسی کا اعلان نافذ العمل ہو، صدر بذریعہ فرمان یہ اعلان کرسکے گا کہ بنیادی حقوق میں سے ان کے نفاذ کے لیے کسی عدالت سے رجوع کرنے کا حق اور کسی عدالت میں کوئی کارروائی اس مدت کے لیے معطل رہے گی، جس کے دوران مذکورہ اعلان نافذ العمل رہے اور ایسا کوئی فرمان پورے پاکستان یا اس کے کسی حصے کے بارے میں صادر کیا جاسکے گا۔
ادھر پی ٹی آئی غالباً اسلام آباد پر ایک بار پھر لشکر کشی کے فائنل راؤنڈ سے پہلے اس کی ریہرسل کرنا چاہتی ہے۔ منگل کو اڈیالہ جیل کے باہر اجتماع اور بدھ کے روز یوم شہدائے جمہوریت منانے کے اعلانات بظاہر اسے سلسلے کی کڑی ہیں۔ پی ٹی آئی پنجاب کی چیف آرگنائزر عالیہ حمزہ نے پارٹی سے تعلق رکھنے والے پنجاب کے تمام ارکان اسمبلی اور ٹکٹ ہولڈرز کو ہدایت کی ہے کہ ہر ایک اپنے ساتھ چار بندے لے کر پچیس نومبر بروز منگل اڈیالہ جیل پہنچے۔
اسی طرح کے احکامات خیبرپختونخوا میں بھی دیئے جارہے ہیں۔ تاکہ اڈیالہ جیل کے باہر یا اندر ہنگامہ آرائی کی جا سکے۔ یعنی ایک طرح سے اب اپنے بچے کھچے ارکان اسمبلی کو بھی عالیہ حمزہ، بلی چڑھانے پر تُلی ہوئی ہیں کہ اڈیالہ کے باہر کوئی ایسا فساد کرادیا جائے جس کے نتیجے میں ارکان اسمبلی پر مقدمات بنیں اور ان کی نااہلی کا راستہ ہموار ہو جائے۔ کتنے ارکان اسمبلی اس جال میں پھنسنے کے لیے منگل کو اڈیالہ جیل پہنچتے ہیں؟ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے۔ ساتھ ہی عالیہ حمزہ نے بدھ چھبیس نومبر کو نام نہاد ’’یوم شہدائے جمہوریت‘‘ منانے کا اعلان کیا ہے۔ اس سلسلے میں بھی تمام ایم پی ایز اور ٹکٹ ہولڈرز کو ہر گلی، بازار اور عوامی مقامات پر اسٹیکر چسپاں کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ حکومت اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے کیا حکمت عملی اپناتی ہے۔
دوسری جانب وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی نے چند یوٹیوبرز سے ملاقات کے دوران اپنے آئندہ کے عزائم پر روشنی ڈالی ہے۔ ملاقات کرنے والے انہی یوٹیوبرز کی زبانی جو بات چیت منظر عام پر آئی ہے۔ اس کے مطابق سہیل آفریدی کا کہنا ہے کہ پہلے چھوٹے بڑے احتجاج ہوں گے۔ اس کے بعد کچھ بہت بڑا ہوگا۔ ایک سوال پر موصوف کا دعویٰ تھا کہ لوگ بہت بڑی تعداد میں باہر نکلنے کے لیے تیار ہیں۔ ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ اگر صوبے میں ہماری حکومت ختم کی گئی تو پھر بہت بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر ہوں گے اور یہ پُر امن نہیں ہوں گے۔
اس کھلی دھمکی سے لگتا ہے کہ انہیں اپنی صوبائی حکومت جانے کا خوف محسوس ہونا شروع ہوگیا ہے۔ جب پوچھا گیا کہ آپ احتجاج ڈی چوک پر کریں گے یا کسی اور مقام پر؟ تو ان کا کہنا تھا ’’احتجاج کرنا اور ڈی چوک آنا ہمارا آئینی حق ہے۔ اپنا یہ حق ہم استعمال کرکے رہیں گے۔ یہ احتجاج یا اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کب کرنا ہے؟ اس پلان کو خفیہ رکھا گیا ہے۔‘‘
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos