غزہ میں 2سے 3 ہفتے تک نیاسیٹ اپ۔ حماس حکمرانی چھوڑنے پر تیار

غزہ میں دوسے تین ہفتے تک نیا سیٹ اپ آرہاہے۔ حماس بھی حکمرانی چھوڑنے پر تیار ہوگئی۔امریکی حکام کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کرسمس سے قبل غزہ کی پٹی میں امن عمل کو دوسرے مرحلے میں لے جانے اور نئے حکومتی ڈھانچے کا اعلان کرنے والے ہیں۔ دو سینئر امریکی حکام اور ایک مغربی ذریعے نے بتایا کہ غزہ کے لیے بین الاقوامی فورس اور نیا حکومتی ڈھانچہ تقریباً تیار ہے اور اسے آئندہ دو سے تین ہفتوں میں ظاہر کیے جانے کا امکان ہے۔

مغربی ذریعے کے مطابق تمام امور تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں اور ہدف یہ ہے کہ کرسمس کی تعطیلات سے پہلے اس منصوبے کا اعلان کر دیا جائے۔

دوسرے مرحلے میں اسرائیل کا مزید انخلا، غزہ میں استحکام کے لیے بین الاقوامی فورس کی تعیناتی اور نئے حکومتی ڈھانچے پر کام کا آغاز شامل ہے۔ اس میں امن کونسل کی قیادت ٹرمپ کریں گے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پہلے ہی بین الاقوامی فورس اور امن کونسل دونوں کی منظوری دے چکی ہے۔

حماس کے ایک سینیئر رہنما نے کہا ہے کہ حماس غزہ پر اپنی حکمرانی جاری رکھنے کی آرزومند نہیں رہی ۔عرب میڈیاسے بات کرتے ہوئے اس رہنما نے مزید کہا کہ پہلے ہی تنظیم ٹیکنوکریٹس کی ایسی کمیٹی کی تشکیل سے اتفاق کر چکی ہے جو مستقبل میں غزہ کے انتظامی امور کو دیکھے گی۔ گروپ نے پہلے ہی وہ تمام نام تجویز کر دیے ہیں جو اس ٹیکنوکریٹ باڈی کا حصہ ہوں گے۔ کیونکہ اندرونی طور پرکمیٹی کی فہرست پر اتفاق ہو چکا ہے۔تاہم انہوں نے یہ بھی کہا اس کے باوجود مذاکرات میں پیش رفت جاری ہے۔ اسرائیل رکاوٹیں پیدا کر رہا ہے۔ اس کی رکاوٹوں کا مقصد اتفاق رائے کو عملی جامہ پہنانے میں مسائل پیدا کرنا ہے۔

بین الاقوامی استحکام فورس کے حوالے سے ایک سوال پر حماس کے ذمہ دار نے کہا کہ اس فورس کی تعیناتی خالصتاً جنگ بندی کی مانیٹرنگ کے لیے ہوگی اور اس کا غزہ کے انتظامی امور سے کوئی لینا دینا نہیں ہوگا۔ نیز اس کے کردار کو مختلف فریقوں اور ان میں ممکنہ جھگڑے سے بھی دور رکھنا ہوگا۔انہوں نے کہاکہ ثالث ملک بھی اس امر کی حمایت کرتے ہیں کہ بین الاقوامی استحکام فورس مانیٹرنگ کی حد تک ہوگی اور اس کی تعیناتی جنگ بندی سے متعلق امور کے لیے ہوگی۔

امن کونسل کے تحت ایک بین الاقوامی ایگزیکٹو باڈی تشکیل دی جائے گی، جس میں سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر، ٹرمپ کے دو مشیر جیرڈ کشنر اور اسٹیو وِٹکوف اور دیگر ممالک کے سینئر نمائندے شامل ہوں گے۔

یاد رہے امریکہ کی مدد سے طے پائے معاہدے کے تحت 10 اکتوبر سے غزہ میں جنگ بندی جاری ہے۔

غزہ کے لیے نئی فلسطینی حکومت میں ٹیکنوکریٹ وزرا ہوں گے جو ایگزیکٹو باڈی کے ماتحت کام کرے گی۔ مجوزہ حکومت میں 12سے 15 ایسے فلسطینی شامل ہوں گے جنہیں انتظامی و تجارتی تجربہ ہو اور جو حماس اور فتح سمیت کسی فلسطینی جماعت سے تعلق نہ رکھتے ہوں۔ ابتدائی فہرست میں 25نام شامل تھے جن میں سے نصف کو خارج کر دیا گیا۔ کچھ امیدوار غزہ میں رہتے ہیں ، چند باہر سے واپس آئیں گے۔

بین الاقوامی فورس غزہ کے اس حصے میں تعینات کی جائے گی جہاں اس وقت اسرائیلی فوج موجود ہے، جس کے بعد اسرائیل مزید انخلا کرے گا۔

امریکی حکام کے مطابق امریکہ، قطر، مصر اور ترکیہ حماس کے ساتھ ایک ایسے معاہدے پر بات کر رہے ہیں جس کے تحت حماس غزہ کی حکمرانی چھوڑ دے گی اور بتدریج اپنا اسلحہ رکھ دے گی۔ مغربی ذریعے کے مطابق قطر اور مصر اس بارے میں پرامید ہیں، مگر اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نتنیاہو شکوک رکھتے ہیں، اگرچہ وہ اس عمل کو موقع دینے پر آمادہ ہیں۔ ان کے مطابق فارمولا یہ ہے : اسرائیلی فوج غزہ سے باہر، حماس اقتدار سے باہر۔

اہم سوال یہ ہے کہ کیا حماس واقعی اپنے ہتھیار رکھ کر نئی حکومت کو اختیار سنبھالنے دے گی۔ اس بارے میں فیصلہ آئندہ ہفتوں میں واضح ہو گا۔

اطلاعات کے مطابق ٹرمپ اور نیتن یاہو کے درمیان دسمبر کے اختتام سے قبل ملاقات متوقع ہے تاکہ اگلے مرحلے پر بات ہو سکے۔ ٹرمپ انتظامیہ جنگ کی واپسی سے بچنے اور موجود جنگ بندی کو برقرار رکھنے کے لیے دوسرا مرحلہ جلد شروع کرنا چاہتی ہے۔

معاہدے کے پہلے مرحلے کی اہم شرط حماس کی جانب سے تمام زندہ اور ہلاک یرغمالیوں کی حوالگی تقریبا ًمکمل ہو چکی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔