سمجھیں کہ سیلانی کی شامت آئی تھی، جو وہ پی آئی بی کالونی والے بھائی جان سے سلام دعا کرنے دو گھڑی کو ٹھہر گیا، وہ طویل عرصے بعد بھائی جان کے پاس حاضر ہوا تھا، وہ سیلانی سے اس کی طویل غیر حاضری پر سچ میں ناراض تھے، پہلے سیلانی آتے جاتے بھائی جان کے پاس چلا آتا تھا، فرمائش کر کے بھابھی سے کیری کا شربت بنواتا تھا اور کچھ دیر گپ شپ کر کے دعائیں لیتا ہوا اپنی پھٹپھٹی پر رخصت ہو جاتا، اس بار لگ بھگ سات ماہ بعد آنا ہوا تھا، بھائی جان نے کان تو کھینچنے ہی تھے، بھائی جان جیسے لوگ اس دھرتی کا نمک ہیں، ان کی چھوٹی سی دکان بہت سے سفید پوشوں کا بھرم رکھے ہوئے ہے، پیچھے بستی کی کچی آبادی کے کتنے ہی گھر ہیں، جہاں سے آنے والے ناک سکوڑتے بچے کبھی واپس نہ کرنے والا ادھار لے کر جاتے ہیں، محلے کے کئی ریٹائرڈ بزرگ سگریٹ کی طلب میں بھائی جان کی دکان پر اخبار چاٹنے چلے آتے ہیں اور بھائی جان مصنوعی غصے کے ساتھ سگریٹ کی ڈبیا سامنے رکھ دیتے ہیں کہ کچھ دن صبر کر لو، اوپر سے بلاوا آیا ہی جاتا ہے، اب ایسی بھی کیا جلدی ہے، جو سگریٹ پھونکے جا رہے ہو… سیلانی کو بھائی جان کی اس بات پر بڑی حیرت ہوتی تھی کہ وہ سگریٹ پیتے ہیں نہ بیچتے ہیں، پھر دکان میں سگریٹ کیوں رکھتے ہیں؟ ایک دن سیلانی کے پوچھنے پر کہنے لگے: میرے پاس سارے ہی فارغ آتے ہیں، یہ وہ بوڑھے بابے ہیں، جنہوں نے ساری زندگی اولاد کے لئے لگا دی، پڑھایا لکھایا، کسی قابل بنایا، کل تک ان کا ہاتھ دینے والوں میں سے تھا تو سب صحیح تھا، اب بڑھاپے نے انہیں لینے والوں کی قطار میں کھڑا کر دیا ہے تو وہ اولاد کو بوجھ لگتے ہیں، کم بخت مہینے کے دو تین ہزار روپے ہاتھ پر نہیں رکھتے، اب جس نے چالیس پینتالیس سال سگریٹ پھونکی ہو، وہ اس کے بنا کیسے رہ سکتا ہے، لیکن وہ پیسے کہاں سے لائے؟ بیچارے میرے پاس چلے آتے ہیں، میرا بھی ٹائم پاس ہو جاتا ہے۔
’’یار! کیا نخریلی محبوبہ کی طرح منہ پھلا رکھا ہے، اب غصہ تھوک بھی دیں اور اچھی سی چائے پلوائیں باقر خانیوں کے ساتھ۔‘‘
’’اچھی سی چائے پلوائیں باقر خانیوں کے ساتھ…‘‘ بھائی جان نے سیلانی کی نقل کچھ اس طرح سے اتاری کہ سیلانی بے ساختہ ہنس پڑا، بھائی جان بھی مسکرا دیئے، ان کی ناراضگی ٹریفک سگنل کے کھلنے اور بند ہونے سے زیادہ وقت کی نہیں ہوتی، بھائی جان نے دکان کا بغلی دروازہ بجا کر بیگم سے کہا ’’آپ کا چہیتا آیا ہے، چائے مانگ رہا ہے بالائی والی، ذرا اپنے حنائی ہاتھوں سے دو کپ چائے تو بنانا۔‘‘
’’کچھ شرم کریں، گنجے ہو رہے ہیں اور ابھی تک چونچلے نہیں گئے…‘‘ بھابھی نے غصے سے کہا اور دروازے کی اوٹ سے سیلانی کی خیر خیریت پوچھ کر چائے بنانے چلی گئیں۔
’’اور سنائیں کام دھندا کیسا چل رہا ہے؟‘‘
’’اللہ کا شکر ہے، گاڑی چل رہی ہے، بس بیچ میں جب فاروق ستار نے یہاں ڈیرے ڈالے تھے تو تھوڑی سی پریشانی ہوئی تھی کہ اب پھر لونڈے لپاڑے یہاں نہ چپکو ہو جائیں، لیکن وہ بلا بھی ٹل ہی گئی۔‘‘
سیلانی دکان میں پاپڑ کھاتے ہوئے گپ شپ لگا ہی رہا تھا کہ ماسٹر صاحب اور مرزا صاحب کسی بات پر الجھتے ہوئے آ گئے۔ سیلانی پر نظر پڑتے ہی ماسٹر صاحب کھل گئے اور مرزا صاحب سے کہنے لگے:
’’اب ہو جائے گا فیصلہ، ہاں میاں! یہ بتاؤ کہ نواز شریف نے کبھی کل بھوشن یادیو کا نام لیا؟‘‘
سیلانی نے مسکراتے ہوئے نفی میں سر ہلا دیا، ماسٹر صاحب اور مرزا صاحب ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزم ہیں، لیکن بہوؤں کے رویئے کو چھوڑ کر شاید ہی وہ کسی معاملے پر متفق ہوئے ہوں۔
’’دیکھ لیا، سن لیا ناں اپنے کانوں سے؟‘‘ ماسٹر صاحب کا انداز فاتحانہ تھا۔
’’اور میاں آپ کا عمران خان کون سا کشمیر کے بارڈر پر بندوق لے کر کھڑا ہے… اس کے بھی تو زینت امان اور ریکھا سے چکر چلتے رہے ہیں۔‘‘
’’اب آپ ذاتیات پر اتر آئے، پالیسیوں پر بات کرو، پالیسیوں پر…‘‘
’’لیڈر کا کردار بھی پبلک پراپرٹی ہوتا ہے، کیوں جی میں نے غلط کہا؟‘‘ مرزا صاحب نے سیلانی کی جانب تائید طلب نظروں سے دیکھا اور سیلانی نے فوراً اثبات میں گردن ہلا دی۔ ماسٹر صاحب نے جھٹ سے کہا ’’چلیں، اس پر بھی بات کرلیتے ہیں، پہلے اس بات کا جواب دیں کہ بھارت کے معاملے پر نواز شریف کی زبان تالو سے کیوں لگ جاتی ہے؟ کل بھوشن پکڑا گیا، میاں صاحب چپ… بھارت کشمیر میں ہمارا پانی چوری کر گیا، ڈیموں پر ڈیم کھڑے کر گیا، میاں صاحب چپ… اور بولے تو یہ بولے کہ کارگل میں ہمیں نقصان ہوا… بولے تو یہ بولے کہ پاکستان اور بھارت کا کلچر ایک ہی ہے، ہم ایک سے ہی ہیں… بھائی! ایک سے ہوتے تو ہم یہاں اور وہ وہاں کیوں ہوتے؟ بٹوارہ کیوں ہوتا؟ میاں صاحب نے تو دو قومی نظریئے کی نفی ہی کر دی، ایسے ہوتے ہیں لیڈر!!‘‘
ماسٹر صاحب نے ناک کی ڈھلان پر سرک کر نوک تک آجانے والی عینک کو انگشت شہادت سے دوبارہ اوپر کیا اور دوبارہ شروع ہوگئے:
’’دشمن ہماری جڑیں کاٹنے میں لگا ہوا ہے اور انہیں پریم کہانی سوجھ رہی ہے، ابھی مہینہ نہیں ہوا، نئی دہلی میں باغی بلوچوں کا دفتر کھلوائے ہوئے، کیوں جی میں غلط کہہ رہا ہوں؟‘‘
سیلانی نے نفی میں سر ہلا دیا، وہ درست کہہ رہے تھے، ان کا اشارہ نئی دہلی میں فری بلوچستان موومنٹ کے دفتر کی جانب تھا، غالباً تیئس جون کو نئی دہلی میں باقاعدہ تقریب میں اس دفتر کا فیتہ کاٹا گیا تھا، ماسٹر صاحب خاصی تیاری سے بات کر رہے تھے، مرزا صاحب بس پہلو پر پہلو بدلے جا رہے تھے، آخر کار کہنے لگے:
’’شمالی اور جنوبی کوریا مل سکتے ہیں، مشرقی اور مغربی جرمنی ایک ہو سکتے ہیں، لیکن ہم دشمنی ختم کرنے کی بات نہ کریں، غربت و بے روزگاری کے خاتمے کی بات نہ کریں… پڑوسی نہیں بدلے جاتے ماسٹر! رویہ کیوں نہ بدلا جائے، دشمنی کیوں نہ ختم کی جائے جی، یہ جو گولا بارود پر اربوں ڈالر خرچ کرتے ہیں، یہ ہم خود پر کیوں نہ لگائیں، میاں نواز شریف کا بس یہی جرم ہے…‘‘
مرزا صاحب کی بات جاری تھی کہ دکان کا بغلی دروازہ بجا اور بھابھی نے طشتری تھما دی، جس میں چائے کی ٹکوزی سے ڈھانپی ہوئی کیتلی اور نمکو کی پلیٹ رکھی ہوئی تھی۔
چائے اور نمکو دیکھ کر ماسٹر صاحب اور چچا مرزا کی آنکھیں چمک گئیں، چچا مراز نے مسکراتے ہوئے کہا: ’’ارے واہ بھئی سیلانی صاحب! آپ کی آمد سے تو ہمارا بھی بھلا ہوگیا، بہو کے ہاتھوںکی چائے اور خستہ نمکو… ذرا یہ پلیٹ یہاں بڑھانا…‘‘
’’جیسے تمہارا لیڈر ندیدہ ویسے تم ندیدے…‘‘ ماسٹر صاحب بھلا چوٹ کرنے کا موقع کیسے جانے دیتے۔ چچا مرزا نے اپنے ہم عمر دوست کو گھور کر دیکھا اور کہا ’’ہمارا پیٹ تو چھٹانک بھر نمکو سے بھر جائے گا، ان کی فکر کرو، جنہیں ووٹ دینے جا رہے ہو اور جن کا پیٹ بھرنے کا نام ہی نہیں لیتا۔‘‘
بھائی جان نے کپوں میں چائے انڈیلی اور مہمانوں کو تھماتے ہوئے سیلانی سے کہنے لگے: ’’ہاں بھئی چیف جسٹس صاحب! پھر چچا مراز کا مدعا درست ہے یا ماسڑصاحب کا؟‘‘
سیلانی نے جھٹ سے دونوں ہاتھ جوڑ دیئے: ’’ہمیں تو بخشیں، یہ فیصلہ آپ ہی کریں۔‘‘
بھائی جان کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ سیلانی ان کا ساتھ دیتے ہوئے مسکرانے لگا اور چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے سوچنے لگا، بڑے فیصلے میں تھوڑے ہی دن رہ گئے ہیں، ہمارا جمہوری انتخابی نظام جیسا بھی ہے، لیکن بہرحال فیصلہ تو اسی نظام میں رہ کر ہونا ہے، اسے خوشی ہوئی کہ کہیں تو نالیوں، سڑکوں، ابلتے گٹروں کے بجائے قومی ایشوز پر بات ہوئی، ورنہ ہر جگہ کونسلروں کے کام کو قانون سازوں کا کام جان کر ان سے گلے شکوے ہی دیکھے۔ کوئی ان عوام سے یہ تو پوچھے کہ سڑکیں بنانا، گلیاں پکی کرانا، کچرہ کنڈیاں بنانا اور کچرہ اٹھانا قومی اور صوبائی اسمبلی میں بیٹھنے والوں کا ہی کام ہے تو پھر کیا قانون سازی کونسلروں سے کروائیں؟ سیلانی چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے دونوں بزرگوں کو ایک دوسرے پر جملے اچھالتے ہوئے دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔ ٭
Next Post