ہالینڈ کی اسلام مخالف جماعت فریڈم پارٹی کے سربراہ گیرٹ ویلڈرز ملعون نے گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کا اعلان کر رکھا ہے۔ ڈچ پارلیمنٹ میں یہ نفرت انگیز مقابلے رواں برس دسمبر میں منعقد کرائے جائیں گے، جس میں گستاخ امریکی کارٹونسٹ کو جج مقرر کیا گیا ہے۔ اس دل آزار سرگرمی کی اجازت ہالینڈ کے قومی سلامتی کے محکمے اور محکمہ انسداد دہشت گردی کے، کو آرڈی نیٹر نے دیدی ہے۔ اس ناپاک منصوبے نے دنیا بھر کے مسلمانوں کا قلب و جگر چھلنی کر دیا ہے۔ گستاخی کے ان پے درپے واقعات کے خلاف وہ سراپا احتجاج ہیں۔ مگر مسلم حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ تاہم مقام شکر ہے کہ ڈچ ملعون کی اس گھنائونی حرکت کے خلاف پاکستان متحرک ہوگیا ہے۔ جمعرات کو ہالینڈ کے سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے شدید احتجاج کیا گیا۔ یورپی یونین کے سفیر کو بھی بلاکر اظہار تشویش کیا گیا۔ پاکستان نے ڈچ سفیر آردی اسٹیو آئی اوس براکن پر واضح کیا کہ ایسی گستاخی برداشت نہیں کی جائے گی۔ ناپاک منصوبے کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل کیلئے او آئی سی کو مکتوب ارسال کر دیا گیا، جس کے ساتھ عالمی سطح پر احتجاج بھی ریکارڈ کرایا جائے گا۔ اسلامی دنیا سے ہالینڈ کے خلاف سخت اقدامات کی سفارش کی گئی ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق اس حوالے سے حکومت پاکستان کی جانب سے بھر پور اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب ملعون گیرٹ کے خلاف کارروائی کے بجائے ہالینڈ کے وزیر خارجہ اسٹیف بلاک کھلی اسلام دشمنی پر اتر آئے ہیں۔ ہیگ میں بین الاقوامی تنظیموں کے اجلاس میں اسٹیف بلاک نے مسلمانوں کے حوالے سے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی ملک میں مختلف نسل کے لوگ بستے ہوں تو وہاں امن قائم نہیں رہ سکتا، انہیں نکال دینا چاہئے۔ ڈچ وزیر خارجہ کے متنازع بیان کی لیک ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد دنیا بھر میں ہالینڈ کو تنقید کا سامنا ہے۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ مغرب کی ’’مہذب‘‘ دنیا نے انبیائے کرامؑ، مقدس شخصیات اور ادیان کو ہدف تضحیک بنا کر اربوں افراد کی دل آزاری کی ہو۔ پہلے بھی توہین رسالت کے مرتکب ملعونوں کو پناہ اور تھپکی دی جاتی رہی ہے۔ امریکا اور یورپ نے 80ء کی دہائی میں سلمان رشدی ملعون کی حوصلہ افزائی کی اور اسے تحفظ اور اعزازات سے نوازا، امریکی صدر بل کلنٹن نے اسے ایوارڈ دیا، پھر ملعونہ تسلیمہ نسرین کو اہل اسلام کی دل آزاری کے صلے میں خوب نوازا گیا۔ اس کے بعد آزادیٔ اظہار کی آڑ میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اہل مغرب کی جانب سے تواتر کے ساتھ توہین شان رسالت اور قرآن کریم نذر آتش کرنے جیسی ناپاک حرکتوں کا ارتکاب کیا جانے لگا۔ 2005ء میں ڈنمارک کے اخبار نے توہین آمیز خاکے شائع کئے، جس کے خلاف پوری دنیا میں زبردست احتجاجی تحریک چلائی گئی۔ 2008ء میں اسی ملعون گیرٹ ویلڈرز نے توہین آمیز فلم ’’فتنہ‘‘ بنائی، جس پر آسٹریلوی عالم فیض محمد نے اس کے قتل کا فتویٰ جاری کیا، پھر فرانسیسی جریدے چارلی ایبڈو نے گستاخی کا ارتکاب کیا، جس کا خمیازہ اسے جنوری 2015ء میں مسلح حملے کی صورت بھگتنا پڑا اور اس سے وابستہ 12 افراد ہلاک ہوئے۔ 2011ء میں امریکی پادری ملعون ٹیری جونز نے قرآن پاک کے نسخے نذر آتش کیے۔ اسی دوران امریکا میں گستاخانہ فلم بھی بنائی گئی۔ اب ’’فتنہ‘‘ فلم بنانے والے اسی ملعون گیرٹ ویلڈرز نے مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کیلئے توہین شان رسالت پر مشتمل گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کا اعلان کیا ہے۔ وہ اس مقابلے میں زیادہ سے لوگوں کو شریک کرنے کیلئے مہم چلا رہا ہے۔ اہل مغرب نے مسلمانوں کے خلاف طاقت کے وحشیانہ استعمال سمیت ہر اوچھا ہتھکنڈہ استعمال کرکے دیکھ لیا، مگر ان کی کوششوں کے علی الرغم اسلام بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ جس پر طویل تحقیق کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مسلمانوں کے دل میں جب تک ان کے نبیؐ کی محبت موجود ہے، مغرب کا کوئی حربہ ان کے خلاف کارگر نہیں ہو سکتا۔ حکیم الامت علامہ اقبالؒ کے بقول دراصل یہ ابلیس کا اپنے سیاسی فرزندوں کے نام خصوصی پیغام ہے: ’’وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا… روح محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو۔‘‘ عشق رسالت ہی مسلمانوں کی کل متاع حیات ہے۔ مگر انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ڈنمارک میں جب گستاخانہ خاکے شائع ہوئے تھے تو پوری دنیا میں زبردست احتجاج ہوا تھا، مگر اب رفتہ رفتہ مسلمانوں میں وہ جذبہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اس ناپاک منصوبے کا دوسرا مقصد مسلمانوں کو اشتعال دلانا ہے تاکہ ان کی طرف سے ردعمل ظاہر ہو اور دنیا کے سامنے انہیں دہشت گرد ثابت کیا جا سکے۔ اس حساس معاملے پر ستاون ’’اسلامی‘‘ حکومتیں خاموش ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان مقابلوں کا اعلان ہوتے ہی تمام اسلامی ممالک ہالینڈ سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کرتے۔ دنیا کی ایک چوتھائی آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ وہ ہر قسم کے وسائل سے مالامال ہیں۔ مگر بقول شاعر مشرق: ’’بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے… مسلمان نہیں، راکھ کا ڈھیر ہے‘‘۔ اب پاکستان نے اس حساس ترین معاملے پر پہل کرکے مسلمانان عالم کے دلوں کی ترجمانی کی ہے اور یہ پاکستان کا فرض بھی ہے کہ وہ دنیا کی واحد ریاست ہے، جس کی بنیاد نظریۂ اسلام پر رکھی گئی ہے۔ یہ ہوا کا تازہ جھونکا ہے، اب امید ہے کہ ہماری حکومت کی کوشش سے او آئی سی بھی خواب غفلت سے جاگ جائے اور کوئی ایسا مشترکہ لائحہ عمل بنایا جا سکے کہ گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ منعقد نہ ہو۔ اہل مغرب خصوصاً ہالینڈ والے ہر قسم کی شرم و حیا سے عاری لوگ ہیں۔ ہالینڈ کے سیکس فری معاشرے میں چالیس فیصد بن بیاہی لڑکیاں اپنے ہی بھائی یا باپ سے حاملہ ہوتی ہیں۔ ایسے لوگوں سے اخلاقیات کی توقع کرنا اور احتجاج سے انہیں رام کرنے کی کوشش کرنا کار عبث ہے۔ اس لئے ان کا ہوش ٹھکانے لانے کیلئے عالم اسلام کو سخت اقدامات اٹھانے پڑیں گے۔ جس میں کاروباری بائیکاٹ سرفہرست ہے۔ اس کے ساتھ اقوام متحدہ جیسے بین الاقوامی فورم پر بھی اس مسئلے کو اٹھایا جائے اور ایسا عالمی قانون بنایا جائے کہ انبیائے کرامؑ، مقدس شخصیات، مذہبی کتب اور ادیان کی توہین کو ناقابل معافی جرم قرار دیا جائے۔