قرآن میں میرا ذکر کہاں پر ہے؟

0

ایک دن احنف بن قیسؒ بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ذہن میں یہ بات آئی کہ قرآن کریم میں ارشاد الٰہی ہے کہ:
ترجمہ: ’’ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب نازل کی ہے، جس میں تمہارا تذکرہ ہے کیا تم سمجھتے نہیں‘‘۔
تمہارا تذکرہ؟ اس سے ایک عجیب سا احساس دل میں منڈلانے لگا، بالآخر سوچا کہ میں دیکھوں تو قرآن مجید میں میرا تذکرہ کس انداز میں ہے؟ میں کون ہوں؟ اور کن لوگوں میں سے ہوں؟
قرآن پاک منگوایا اور اس میں غور کرنا شروع کردیا… ایک قوم کا تذکرہ ان الفاظ میں پایا:
ترجمہ: ’’وہ لوگ رات کو کم سوتے ہیں اور سحری کے اوقات میں استغفار کرتے ہیں اور ان کے مالوں میں سائل اور غیر سائل سب محتاجوں کا حق ہے‘‘۔ (سورۃ الذاریات: 17 تا 19)
کچھ اور لوگوں کا تذکرہ ان الفاظ میں موجود پایا…
ترجمہ: ’’ان کے پہلو خواب گاہوں سے جدا رہتے ہیں، وہ اپنے رب کو خوف اور امید سے پکارتے ہیں اور جو ہم نے ان کو رزق دیا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘۔ (سورۃ السجدہ: 16)
پھر کچھ سوچا تو… ان لوگوں کا تذکرہ سامنے آیا جو…
ترجمہ: ’’لوگ اپنے پروردگار کے سامنے سربسجود اور کھڑے ہوکر اپنی راتیں گزار دیتے ہیں‘‘۔ (سورۃ الفرقان: 64)
کچھ اور اوراق پلٹے تو یوں نظر آیا…
ترجمہ: ’’وہ خوشحالی اور تنگی دونوں حالتوں میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ پی جانے والے اور لوگوں کو معاف کردینے والے ہیں اور خدا تعالیٰ نیکو کاروں کو محبوب رکھتے ہیں‘‘۔ (سورۃ آل عمران: 134)
ایسے ہی چند لوگوں کا تذکرہ دیکھا… تو بے ساختہ پکار اٹھے:
اے میرے رب! یہ تو کاملین کا تذکرہ ہے اور اونچی صفات والے اہل ایمان کا پر رونق بیان ہے، میں تو ایسوں میں سے نہیں ہوں۔
پھر ایک اور انداز سے اوراق قرآنی پر نظر ڈالنے لگا تو ایک قوم کا تذکرہ یوں سامنے آیا…
ترجمہ: ’’جب ان سے کہا جاتا ہے کہ خدا کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے (تم اسی کی عبادت کرو) تو وہ تکبر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کیا ہم اپنے معبودوں کو ایک شاعر دیوانے کی وجہ سے چھوڑ دیں‘‘۔ (سورۃ الصافات: 35، 36)
دوسری قوم کا تذکرہ کچھ اس طرح پایا…
ترجمہ: ’’جب ان کے سامنے خدائے وحدہٗ لاشریک کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان لوگوں کے دل تنگ ہو جاتے ہیں، جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور جب خدا کے سوا دوسرے معبودوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو وہ اس وقت بہت خوش ہونے لگتے ہیں‘‘۔ (سورۃ الزمر: 45)
پھر کچھ لوگوں کا بہت برا حال دیکھا… ان سے پوچھا جارہا تھا…
ترجمہ: ’’کس چیز نے تم لوگوں کو جہنم میں لا ڈالا؟ وہ بولے ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہیں تھے اور مساکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے اور تکذیب کے مشغلہ والوں کے ساتھ ہم بھی دین کا مذاق اڑاتے اور روز قیامت کو جھٹلاتے رہے، یہاں تک کہ موت ہمارے پاس آگئی‘‘۔ (سورۃ المدثر: 42 تا 47)
یہاں پہنچ کر احنف بن قیسؒ رک گئے اور کہا:
اے میرے رب! میں ان برے لوگوں سے بیزار ہوں اور تیری پناہ چاہتا ہوں۔
پھر کچھ اور تلاوت جاری رکھی، غور و فکر کرتے رہے، اپنے خیال و جستجو کو قرآنی افکار کے تابع کرکے تدبر کرتے رہے، یہاں تک کہ اس آیت پر پہنچے:
ترجمہ: ’’دوسرے وہ لوگ ہیں، جنہوں نے نیک عمل اور برے عمل دونوں کو ملا جلا رکھا ہے قریب ہے کہ خدا تعالیٰ ان پر توجہ فرمائے اور ان کی توبہ قبول فرما لے، بے شک وہ خدا بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے‘‘۔ (سورۃ التوبہ: 102)
مطالعۂ قرآنی میں یہاں آکر احنفؒ کہنے لگے: بس میں ان لوگوں میں ہوں۔ میرے پاس بھی کچھ نیک اعمال ہیں اور خطاؤں کے ڈھیر بھی بہت ہوگئے ہیں، بس مجھے اس ذات کی جانب متوجہ ہوکر توبہ کرنی چاہئے، پس وہ رحیم و کریم رب مجھے معاف کر ہی دے گا۔
سواے مسلمان! تو بھی کتاب الٰہی میں اپنے مقام کے متعلق غور فکر کر، دیکھ کہ تو کون سے طبقہ میں شامل ہے اور اس بات سے ڈر، کہ تو ان لوگوں میں سے نہ ہو جائے جن کے لئے رب کی رحمت سے دوری ہمیشہ کے لئے لکھ دی گئی ہے یا جو لوگ عذاب الیم کا شکار ہونے والے ہیں۔ (اسلاف کے بے مثال واقعات)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More