اعداد وشمار کی فریب کاریاں (نویں قسط)

0

سروے کمپنیاں تجارتی میدان کے ساتھ ساتھ سیاسی میدان میں بھی جگہ بنا چکی ہیں۔ وہ کسی بھی سیاسی جماعت کی فرمائش پر ایسے سروے جاری کرتی ہیں، جو دراصل اس جماعت کی حمایت میں جاتے ہیں۔ ظاہر ہے سروے کمپنیاں اس کام کا بھاری معاوضہ لیتی ہیں۔ اعداد و شمار کی اس جادوگری سے پردہ سب سے پہلے ڈیرل ہف نے اٹھایا تھا۔ ان کی کتاب How to Lie with Statistics اس موضوع پر مستند ترین کتابوں میں سے ایک ہے۔ اس کتاب کے تیس سے زائد انگریزی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں اور دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ موجودہ الیکشن کے تناظر میں اس کتاب کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ (ادارہ)
1948ء میں بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کی طرف سے ملکی اخبارات میں شائع ہونے ایک اشتہار نے قارئین کی دلچسپی حاصل کرلی، جس کی شہ سرخی کچھ اس طرح کی تھی ’’آج امریکا کے تین چوتھائی زرعی فارمز کو بجلی دست یاب ہے۔‘‘
بلاشبہ دل خوش کر دینے والی اطلاع۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ بجلی والی کمپنیاں واقعی شان دار کام کررہی ہیں۔ لیکن اگر آپ اسی اطلاع کو الفاظ بدل کر قارئین تک پہنچانا چاہیں تو جملہ کچھ یوں ہونا چاہیے ’’امریکا کے ایک چوتھائی زرعی فارمز آج بھی بجلی سے محروم ہیں۔‘‘
تاہم اصل شعبدہ بازی لفظ ’’دست یاب‘‘ میں پوشیدہ ہے اور اس لفظ کے استعمال کے ذریعے کمپنیاں وہ سب کچھ بے دھڑک کہہ گزرتی ہیں، جو ان کی مرضی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اس بیان کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان تمام کسانوں کو واقعی بجلی میسر ہے۔ ہمیں صرف یہ معلوم ہے کہ انہیں یہ بجلی محض ’’دست یاب‘‘ ہے، اس کے مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے کھیتوں سے دس میل یا سو میل کے فاصلے سے بجلی کی تاریں گزرتی ہیں۔
میں یہاں 1952ء میں کولیئر جریدے کے ٹائٹل پر شائع ہونے والے ایک مضمون کی سرخی کا حوالہ دینا چاہوں گا ’’اب آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ کے بچے کا قد کتنا لمبا ہوگا۔‘‘ اس مضمون کے ساتھ دو چارٹ دیئے گئے ہیں، جن میں سے ایک لڑکوں اور دوسرا لڑکیوں کے لیے ہے، جن میں دکھایا گیا ہے کہ عمر کے ہر سال میں آپ کا بچہ اپنے حتمی قد کے کتنے فی صد تک پہنچ جاتا ہے۔ ساتھ ہی اس مضمون نگار کا بیان بتاتا ہے ’’بلوغت میں اپنے بچے کی عمر کا اندازہ لگانے کے لیے اس چارٹ کے مقابلے میں اپنے بچے کے موجودہ قد کی پیمائش کریں۔‘‘
مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ اگر آپ یہ مضمون پڑھیں تو یہ خود بتاتا ہے کہ اس چارٹ میں کس قدر فیصلہ کن نقائص موجود ہیں۔ تمام بچے ایک ہی انداز میں پروان نہیں چڑھتے۔ بعض کا قد ابتدا میں سست رفتاری سے بڑھتا ہے اور پھر اس میں تیزی آجاتی ہے، دیگر بچے پہلے تیزی سے بڑھتے ہیں اور پھر سست رفتاری سے اور اس طرح معاملہ برابری پر آجاتا ہے، جب کہ بہت سے نسبتاً یکساں رفتار سے نمو پاتے ہیں۔
یہ چارٹ، جیسا کہ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں، پیمائشوں کی بہت بڑی تعداد سے حاصل کی گئی اوسط پر مبنی ہے۔ مجموعہ یا اوسط حاصل کرنے کے لیے بلا ترتیب سیکڑوں نوجوانوں کے قد کی پیمائشوں کو یک جا کر نا بلاشبہ ایک قابل اعتبار طریقہ ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ والدین کو صرف اپنے بچے کے قد میں دلچسپی ہوتی ہے، جس کے لیے یہ چارٹ عملاً بے کار ہے۔ اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے کا قد کتنا ہوگا تو اندازہ لگانے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ آپ بچے کے باپ اور دادا کے قدوں پر نظر ڈالیں۔ یہ طریقہ سائنسی اور اس چارٹ کی طرح حتمی نہیں ہے، لیکن کم از کم قرین عقل ضرور ہے۔
میں یہاں یہ پُر لطف بات بتانا چاہوں گا کہ جب میں چودہ سال کی عمر میں ہائی اسکول ملٹری ٹریننگ میں شامل ہوا تو میرا جو قد ریکارڈ کیا گیا، وہ مجھے سب سے پستہ قد لڑکوں کے گروہ میں بھی نچلے درجے کا حصہ بتا رہا تھا۔ اس وقت میرے قد کی پیمائش کے اعتبار سے اس چارٹ کے مطابق میرا حتمی قد بمشکل پانچ فٹ سات انچ ہونا چاہئے تھا، جب کہ اس وقت میرا قد پانچ فٹ گیارہ انچ ہے۔ انسانی قد کی پیمائش میں یہ چار انچ کی غلطی چارٹ میں دیئے گئے اندازے کو حد درجہ ناقص ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔
اپنے کسی فیصلے کے لیے کسی اوسط یا گراف پر اندھا یقین کر لینا آپ کو بے پناہ مشکل سے دوچار کر سکتاہے، خصوصاً اگر اس میں سے اہم اعداد و شمار غائب ہوں۔ مثلاً اگر آپ محض اوسط درجہ حرارت کی بنیاد پر کسی مقام کا انتخاب کرلیں۔ ہو سکتا ہے آپ کیلیفورنیا کے ان لینڈ صحرا اور جنوبی ساحل سے ہٹ کر موجود نکولس جزیرے کے درمیانی علاقوں کے 17 سینٹی گریٖڈ اوسط درجہ حرارت کو آرام دہ سمجھ کر اسے خیمہ گاڑنے کے مقام کے طور پر چن لیں۔ لیکن محض اوسط کی بنیاد پر کیا گیا آپ کا یہ فیصلہ آپ کو سردی سے منجمد کرنے یا گرمی میں بھن کر کوئلہ بنانے کا سبب بن جائے، کیوں کہ نکولس جزیرے کا درجہ حرارت 7 سے30سینٹی گریڈ ضرور ہو سکتا ہے، لیکن صحرا میں پارہ -10 سے 50 سینٹی گریڈ تک پہنچ سکتا ہے۔
اوکلاہوما سٹی بھی گزشتہ ساٹھ سال کے لیے اسی طرح کے اوسط درجہ حرارت کا دعویٰ کر سکتا ہے یعنی 17 ڈگری سینٹی گریڈ… لیکن اگر آپ اس شہر کے موسم کے سالانہ چارٹ کا جائزہ لیں تو انکشاف ہوگا کہ اس خوش گوار اوسط درجہ حرارت کی کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ حد کے درمیان ہول ناک حد تک وسیع خلیج حائل ہے، یعنی یہاں سردیوں میں درجہ حرارت -29 سینٹی گریڈ تک گرنا معمول کی بات ہے، جبکہ گرمیوں میں درجہ حرارت 55 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ (جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More