کولمبس نے جب اسپین سے انڈیا کی جانب روانہ ہونے کا ارادہ کیا تو وہ جنوب کی سمت کیپ آف گڈ ہوپ سے گھوم کر مشرق کی طرف انڈیا کا رخ کرنے کے بجائے، اسپین سے مغرب کی سمت میں روانہ ہو گیا۔ اس نے سوچا کہ دنیا گول ہے۔ کسی سمت سے بھی انڈیا پہنچا جا سکتا ہے۔ اگر اس نے واقعی ایسا سوچا تھا تو اس کی سوچ بالکل درست تھی، لیکن اس وقت تک کولمبس سمیت کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ دنیا کا گولا کتنا بڑا ہے۔ معلومات آج تو ہمیں حاصل ہیں کہ دنیا کے گرد 24000 میل کا دائرہ ہے، لیکن کولمبس نے اپنی عقل استعمال کرتے ہوئے اس سمت کو شارٹ کٹ سمجھا تھا، اس کا خیال تھا کہ وہ اس راستے سے چار پانچ دن میں انڈیا پہنچ جائے گا۔ یہ اس کی خوش نصیبی تھی کہ وہ راستے میں براعظم امریکا کے کنارے تک پہنچ گیا، اس طرح اس کی زندگی بچ گئی۔ اس کے علاوہ مجموعی طور پر سمندر اور موسم بھی موافق ملا اور وہ جلد وہاں تک پہنچ گیا۔ اگر موسم اور سمندر بگڑا ہوا ملتا یا براعظم امریکا کا کنارہ مزید ہزار یا پندرہ سو میل دور ہوتا تو کولمبس اپنے تمام Crew سمیت بھوکا پیاسا مر جاتا اور جہازوں کے مالکان، جنہوں نے کولمبس کو ماہر جہاز راں سمجھ کر اپنے نئے جہاز اس کے حوالے کئے تھے، وہ سر پیٹتے رہ جاتے۔ اگر براعظم امریکا کا وجود نہ ہوتا تو پھر اس مقام سے پیسفک سمندر تو اٹلانٹک سے بھی بڑا ہے۔ اسے عبور کرنے کیلئے ان کے چوبی بیڑے (Sailing Ships) جواب دے جاتے۔
بعد میں جب امریکا پر یورپین کا قبضہ ہو گیا تو وہاں کھیتی باڑی کے کام کے لئے افریقہ سے سیاہ فاموں کو غلام بنا کر اور زنجیروں میں جکڑ کر وہاں لایا گیا، وقت گزرنے کے ساتھ جہازوں کا معیار بھی بہتر ہوا، لیکن اس کے باوجود جب موسم اور سمندر بگڑا ہوا ہوتا تو جہاز بھٹک جاتے تھے۔ اس طرح کئی دن گزر جاتے اور جہاز کے خلاصی اور سیاہ فام غلام بھوک پیاس کی شدت سے مرنے لگتے تھے، پھر بارش کا پانی جمع کر کے پیا جاتا اور مر جانے والے غلاموں کا گوشت پکا کر باقیوں کو کھلایا جاتا، تاکہ امریکا پہنچنے تک وہ زندہ رہیں اور انہیں فروخت کر کے سفر کے اخراجات وصول کر سکیں۔
ان سیاہ فاموں کی بھی درد بھری کہانی ہے، جسے کسی دوسرے موقع پر تحریر کروں گا۔ اس معاملے میں نہ صرف یورپی گورے بلکہ ہمارے عرب مسلمان اور خود افریقہ کے سیاہ فام سردار، وڈیرے بھی ملوث رہے ہیں۔ اس کی ایک جھلک فلم Roots اور اسی نام کے ناول میں بھی دکھائی گئی ہے۔
آج کے جہاز چلانا کچھ زیادہ مشکل کام نہیں ہے، کیوں کہ یہ مضبوط اور ماڈرن ہیں۔ دنیا بھر کے سمندروں کے نقشے دستیاب ہیں۔ سمندر کے ایک ایک میل کی پیمائش اور گہرائی سامنے ہوتی ہے۔ پرانے زمانے میں جب بادبان اور لکڑی کے بیڑے ہوتے تھے، تو جہاز چلانے والے اپنی خواہش کے مطابق کہیں کا سفر اختیار نہیں کر سکتے تھے۔ انہیں ہر معاملے میں موسم اور ہوا کے رخ کو اپنے ذہن میں رکھنا پڑتا تھا۔ پرتگالی واسکو ڈی گاما اس قدر قابل، ماہر اور دلیر جہاز راں تھا کہ اس نے سب سے پہلے ’’کیپ آف گڈ ہوپ‘‘ عبور کیا اور وہ مشرقی افریقہ کی بندرگاہ ممباسا اور اس کے بعد میلندی تک جا پہنچا۔ اسے معلوم تھا کہ انڈیا کا مالا بار کنارہ سیدھا مشرق کی طرف ہے، لیکن اسے یہ خبر نہیں تھی کہ وہاں تک پہنچنے کے لئے سال کا کون سا موسم بہتر ہو گا اور اسے اس سفر کے دوران کن اطراف کی ہوائوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سمندری لہروں کا رخ کس سمت میں ہو گا، جس کے مطابق بادبانوں کو سیٹ کرنا ہو گا تاکہ جہاز (چوبی بیڑہ) Drift ہونے کے بجائے سیدھا منزل کی جانب بڑھتا رہے۔ اس لئے اس نے میلندی سے ایک ناخدا کو گائیڈ کے طور پر اپنے ساتھ لیا، جس کی اجرت طے کر لی گئی تھی۔ اس گائیڈ کے لئے بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ عرب تھا اور بعض کا خیال ہے کہ وہ گجراتی تھا۔ اس نے واسکو ڈی گاما کو میلندی (آج کل کینیا کی بندرگاہ) سے کوچین (انڈیا) تک 27 دن میں پہنچا دیا تھا، آج کے جہاز یہ سفر سات آٹھ دن میں طے کر لیتے ہیں۔
بہر حال واسکو ڈی گاما ایک قابل ملاح تھا۔ وہ افریقہ سے انڈیا پہنچنے کے لئے راستہ اور ہوائوں کا رخ سمجھ گیا تھا۔ واپسی پر بھی وہ گائیڈ کو ساتھ لینا چاہتا تھا، اس کے لئے وہ موافق موسم کا تین چار ماہ انتظار بھی کرنا چاہتا تھا۔ لیکن اس نے انڈیا کے مقامی سرداروں سے پنگا لے لیا اور مجبوراً اسے افراتفری میں جان بچا کر بھاگنا پڑا۔ اس طرح موافق موسم سے پہلے شروع کرنے والے افریقہ کی جانب واپسی کے سفر میں 132 دن لگ گئے، جبکہ 27 دن کا سفر تھا۔ بھوک، پیاس اور بیماریوں کے باعث اس کے نصف سے زیادہ ساتھی مر گئے تھے۔
’’ کیپ آف گڈ ہوپ‘‘ کا نام بار بار آپ کی نظر سے گزرا ہے۔ ہم نے بھی اس کی دہشت ناک کہانیاں کئی لوگوں کی زبانی سنی تھیں۔ اس بارے میں کتابوں میں بھی بہت پڑھا ہے۔ میں یہاں اس کے متعلق چند سطریں تحریر کرنا ضروری خیال کرتا ہوں تاکہ قارئین کو معلوم ہو کہ یہ سمندر کا کون سا حصہ ہے اور یہ اس قدر خطرناک کیوں ہے؟ یہ سمندر کا وہ حصہ ہے، جس نے برسوں، بلکہ صدیوں سے یورپین کو ادھر کے ایشیائی اور مشرقی افریقہ کی بندرگاہوں میں آنے سے روکے رکھا۔
کیپ آف گڈ ہوپ براعظم افریقہ کے زیریں سمندر کا حصہ ہے۔ یہاں بائیں جانب سے یعنی مغرب کی سمت سے ’’اٹلانٹک سمندر‘‘ اور دائیں طرف سے یعنی مشرقی جانب سے ’’بحیرئہ ہند‘‘ ایک دوسرے سے ٹکرا کر بلند و بالا لہریں پیدا کرتے ہیں۔ یہاں آج کے دیو ہیکل آہنی جہاز بھی تنکے کی طرح معلوم ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس علاقے میں یعنی سائوتھ افریقہ کی بندرگاہ ڈربن، ایسٹ لندن، الزبتھ سے کیپ ٹائون تک … بلکہ سالدنہا بندرگاہ تک اور اس سے بھی کچھ آگے جہاں سے نمبیا کا ملک شروع ہوتا ہے، ہر وقت تیز ہوائیں چلتی رہتی ہیں۔ ان ہوائوں کی وجہ سے ہی یہ سمندری علاقہ ’’ Cape of storms‘‘ کہلاتا تھا، لیکن بعد میں جب یورپی جہاز راں اس سمندر کو عبور کر کے انڈیا، ملائیشیا اور انڈونیشیا پہنچے اور وہاں سے اس وقت کے قیمتی خزانے مسالوں سے جہاز بھر کر واپس اپنے ملک گئے تو انہوں نے اپنے ملکوں، پرتگال، اسپین، ہالینڈ، انگلینڈ کو خوشحال کر دیا۔ اس خوشی میں وہ اس سمندر کو ’’طوفانی سمندر‘‘ کے بجائے ’’خوش امیدی کا سمندر‘‘ (کیپ آف گڈ ہوپ) کہنے لگے۔ یہی ’’کیپ آف گڈ ہوپ‘‘ تھا جس نے صدیوں تک ہمیں یورپین سے محفوظ رکھا۔ انہیں ایسی عیاشی اور خوشحالی کبھی نصیب نہیں ہوئی جو اس سمندر کو عبور کرنے کے بعد ان کا مقدر بنی۔
آپ دنیا کے نقشے پر براعظم افریقہ کو دیکھیں گے تو وہ ایک انسانی چہرے سے مشابہ معلوم ہو گا۔ اس کا سر مصر، لیبیا، ٹیونیشیا، الجیریا اور موراکو کے ممالک ہیں۔ اس سر پر بالوں کے بجائے میڈی ٹرینین سمندر ہے۔ موریطانیہ اور سینیگال اس چہرے کا گویا مغربی کان ہیں۔ مشرقی سمت والا کان بحر احمر کے مقام سے کٹا ہوا نظر آتا ہے۔ انسانی چہرے سے مشابہ اس نقشے میں اس کی ٹھوڑی ’’سائوتھ افریقہ‘‘ ہے۔ اس انسانی چہرے کے مشرق میں بحیرہ ہند واقع ہے جو مزید مشرق میں انڈیا اور ملائیشیا تک پھیلا ہوا ہے۔ مغرب کی سمت میں اٹلانٹک سمندر ہے، جو مزید مغرب میں براعظم امریکا تک چلا جاتا ہے۔ دونوں سمندر اتھاہ گہرے ہیں اور دنیا کے پانچ بڑے سمندروں (Oceans) میں شامل ہیں۔ دونوں سمندروں کی بلند اور تیز لہریں براعظم افریقہ کے ساحلوں سے ٹکراتی رہتی ہیں۔ یعنی اس انسانی چہرے کے گالوں سے ٹکرا کر شانت ہو جاتی ہیں۔ ٹھوڑی تک تو یہ سلسلہ چلتا ہے لیکن ٹھوڑی سے نیچے ان دونوں سمندروں کی لہریں ایک دوسرے سے ٹکرا کر ایسا اودھم مچاتی ہیں کہ اس مقام پر ہم جہاز چلانے والے اپنا سر پیٹ لیتے ہیں اور اس وقت کو کوستے ہیں جب ہم نے یہ ملازمت قبول کی تھی… اس سے تو بہتر تھا کہ گائوں میں پکوڑے بیچے جاتے اور سمندر کا یہ علاقہ … یعنی ٹھوڑی سے نیچے والا حصہ جو پورٹ سینٹ جان اور ڈربن سے شروع ہو کر کیپ ٹائون تک پھیلا ہوا ہے۔ اس حصے کو عبور کرنے میں ہمیں دو یا ڈھائی دن لگ جاتے ہیں۔ جہاز کی رفتار کتنی ہی رکھی جائے، لیکن اگر سمندر خراب ہے یا طوفان درپیش ہے تو جہاز کے اوپر نیچے سے اس کا پنکھا (Propeller) کبھی پانی میں اور کبھی پانی سے بلند ہو جاتا ہے۔ سمندری جہاز صرف اس وقت آگے بڑھ سکتا ہے جب اس کا پروپیلر (جہاز کے زیریں حصے میں نصب پنکھا) مسلسل پانی کے اندر گھومتا رہے۔(جاری ہے)
Prev Post
Next Post