یہ کیسی المناکی ہے کہ سیاست جیسے، عوامی خدمت کے شعبے میں ہی سب سے زیادہ اندھیر مچی ہوئی ہے اور یہ اندھیر بھی کسی اور نے نہیں مچائی، اس کے خُوگر خود سیاسی قائدین اور ان کے پری پیڈ یا پوسٹ پیڈ ہیں، جنہوں نے اپنی شُتر بے مہار بد اعمالیوں سے سیاست کا ستیا ناس نہیں، سوا ستیاناس کرکے رکھ دیا ہے۔ ہر سیاسی و مذہبی جماعت کا گُرو، اپنے چیلے چپاٹوں کے جلُو میں مست و بے خود، ایسی ’’سیاہ سی‘‘ ڈرامے بازیوں کا مرتکب ہورہا ہے کہ الامان و الحفیظ۔
یقین جانیں، حافظ جی کو تو یقین ہی نہیں ہو رہا کہ یہ وہی سیاسی لیڈران ہیں، جو دو، پونے دو ماہ پہلے تھے۔ کیا شان تھی ان کی، کلف سے اکڑے کپڑوں کی طرح کڑک۔ زبان وبیان میں بھڑک۔ مگر اب نظارے ہی کچھ اور ہیں۔ وہ سرداران جو اعلیٰ پوشاکیں پہن کر خود اوپر بیٹھتے اور عوام کو زمین پر بٹھاتے تھے، آج معمولی لباس زیب تن کئے عوام کے ساتھ فرشی نشستوں کا دلدادہ ہوئے پڑے ہیں۔ وہ ’’صیب بہادر‘‘ جن کے پاس عوام کے لئے وقت ہی نہیں ہوتا تھا، اب سارا سارا دن بلکہ رات گئے عوامی میلوں ٹھیلوں کا حصہ بنے نظر آرہے ہیں۔ کوئی نان بائی کے تنور پر کھڑا روٹیاں لگا رہا ہے تو کوئی خان بھائی کے معمولی سے چھاپڑے پر اس کی مشین سے گنے کا رس نکالنے میں اس کا مددگار بنا ہوا ہے اور ہاں اس دن تو حد ہی ہو گئی ڈرامے بازی کی جس دن ایک منحنی قد و قامت کا ڈاکٹر جو مدت ہوئی سیاست کے کھیل میںڈان بن کر ڈاکٹری واکٹری بھول چکا، وہ بے چارا تو اپنے سے زیادہ وزن کی کچرا بھری ٹرالی لئے جاتا دکھائی دیا۔ نہ تو اس کی ناک پر رومال تھا، نہ آنکھ میں شرم۔ حافظ جی کیا کہتے کہ ٹرالی میں بھرا کچرا، اس کی سابقہ اور موجودہ کارکردگی پر تبرا بھیجنے کے لئے کافی تھا۔ پھر ایک مولوی صیب جو الیکشن میں نصف درجن جماعتوں کے امیدوار ہیں، ان کی تصویر بھی نظر سے گزری، جس پر ہنسی کچھ یوں چھوٹی کہ سامنے والے کی براق سی شرٹ پر بنا معاوضہ نقش ونگار ثبت کر گئی، اس سے پہلے کہ وہ ہمیں گریبان سے پکڑتا، ہم نے موبائل فون اسے پکڑا دیا، جس کی اسکرین پر حضرت مولوی صیب موٹر سائیکل چلاتے ہوئے اپنی الیکشن مہم میں شریک تھے۔ یہ دیکھ کر سامنے والا بھی اپنی ہنسی پر قابو نہ رکھ سکا اور جواباً ہماری قمیض بھی رنگ دار ہوئے بنا نہ رہ سکی، یوں حساب برابر ہوا۔ ویسے بھی ان دنوں چہار جانب حساب برابر کرنے یعنی احتساب کی فضا ہے اور طرح طرح کے نظارے سامنے آرہے ہیں، جو کبھی ہنسا دیتے ہیں تو کبھی رلا بھی دیتے ہیں۔
حافظ جی کو جس طرح، سردار، ڈاکٹر، مولوی اور دیگر انتخابی امیدواروں نے ہنسنے کا موقع فراہم کیا، بالکل اسی طرح تحریک انصاف کے کارکنوں کے اس عمل نے رونے پر بھی مجبورکیا، جس میں انہوں نے ایک معصوم گدھے پر نواز شریف کا نام لکھ کر اسے بے پناہ تشدد کا نشانہ بنایا اور اپنی ’’سیاہ سی ڈرامے بازی‘‘ کا مظاہرہ کیا۔ تحریک انصاف والے بتائیں کیا ان کا یہ عمل درست ہے کہ انصاف کا نعرہ بلند کر کے ایک بے زبان جانور پر ظلم کیا جائے؟ سیاسی زعم میں انسانیت سے گری ہوئی حرکت کوئی بھی کرے، کیا اس کے مرتکبین انسان کہلائے جانے کے مستحق ہو سکتے ہیں؟ ظالمو! اس محنت کش و بے قصور جانور نے تمہارا کیا بگاڑا تھا جو تم نے اسے مار مار کر لہو لہان ہی نہیں کیا، بلکہ معذور تک کر دیا؟ گھنٹوں اس غریب کی ناک سے خون بہتا رہا، ٹانگ اس قدر زخمی ہوئی کہ وہ چلنے اور اٹھنے سے قاصر اب بھی زیر علاج ہے۔ حافظ جی کے لئے اس واقعے سے بڑھ کر باعث تکلیف بات یہ رہی کہ جس لیڈر کی بد گوئی کے سبب یہ واقعہ رونما ہوا، زخمی گدھے کے حوالے سے اس نے نہ تو اظہار افسوس کیا اور نہ ہی اپنی جماعت کے متعلقہ کارکنوں سے باز پرس کی زحمت گوارا کی اور کچھ نہیں تو اتنا تو کیا جا سکتا تھا کہ پارٹی فنڈ سے مجروح گدھے کا علاج ہی کرا دیا جاتا، جس کا اہتمام بھی بعض این جی اوز کر رہی ہیں، اگر زخمی گدھے کا علاج تحریک انصاف کی قیادت کرا دیتی تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ گدھا ہمدردی کا ووٹ بھی اسے ملنا یقینی تھا، مگر پی ٹی آئی کے کسی… کو اس جانب سوچنے کی توفیق نصیب نہ ہو سکی۔ تو پھر کیا اس بات پر یقین کر لیا جائے کہ عمران خان نے اپنے کارکنوں کو اپنی سیاسی انتخابی مہم کو ’’سیاہ سی انتخابی مہم‘‘ بنانے کا سرٹیفکیٹ تفویض کر دیا ہے؟
صد افسوس کہ جہاں سیاسی جماعتوں کے لیڈران ہی بد کلامی و بد تہذیبی کی علامات بن جائیں، وہاں ان جماعتوں کے کارکنوں سے تہذیب و اخلاق کی توقعات رکھنا عبث ہے۔ سیاست میں گالم گلوچ کی روایت کو بعض ان جماعتوں نے فروغ دیا، جنہیں ’’دو طرفہ آشیرباد‘‘ حاصل رہی۔ متحدہ اور پی ٹی آئی جیسی جماعتوں کے ظہور میں آنے کے بعد جس قسم کی سیاست نے فروغ پایا، دیگر وہ جماعتیں جو کبھی مہذب سمجھی جاتی تھیں، ان کے لیڈران و کارکنان بھی اسی لہر میں بہہ گئے۔ ان کی بھی مجبوری تھی کہ جیسے کو تیسا ضروری تھا، مگر اس سے معاشرتی قدروں میں شدید بگاڑ کی صورت حال نے جنم لیا، جو آج ہمارے سامنے ہے اور جس پر بند باندھنے سے اشد ضرورت عرصے سے محسوس کی جارہی تھی اور اب اس پر کچھ کام ہوتا نظر آ رہا ہے۔ کاش کہ یہ کام سنجیدگی کا متقاضی ہو اور نئی نسل کو بے راہ روی سے بچانے کا سبب بنے۔
سیاسی سرگرمیوں کا پارہ اس وقت انتہائی درجے کو چھو رہا ہے، اہل سیاست جہاں ایک طرف عوامی ہمدردیاں سمیٹنے کی فکر میں ہیں، وہیں دوسری طرف سیاسی مغلوبیت نے ان سے ان کے زبان و بیان کا کنٹرول بھی چھین لیا ہے اور وہ جوش خطابت میں تواتر سے عوام کے خلاف نازیبا کلمات ادا کرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ بد کلامی میں ید طولیٰ کی شہرت رکھنے والے عمران خان نے نواز شریف کے استقبال کو جانے والے عوام کو گدھا کہنے میں ذرا تعامل نہ کیا۔ شریف زادوں کی صف سے ایاز صادق نے اپنے مخالفین کو ووٹ دینے والے پنجابیوں کے لئے تمغۂ ’’بے غیرتی‘‘ کا ببانگ دہل اعلان کیا۔ سابق وزیر اعلیٰ کے پی کے پرویز خٹک نے تو انتہا کر دی، پیپلز پارٹی کا جھنڈا اپنے گھروں پر لہرانے والے عوام کے لئے ایسی شرمناک بات کہہ دی، جو یہاں دہرائی بھی نہیں جا سکتی۔ خود کو دین کا رکھوالا کہنے اور سمجھے جانے والے جے یو آئی کے ’’حضرت مولانا صیب‘‘ بھی مدتوں سے اپنی مخالف جماعت پر دامے، درہمے، سخنے، تبرا بھیجتے آئے ہیں، ایسے نازیبا کلمات کی ادائیگی کے حوالے سے متعلقین کو الیکشن کمیشن نے میڈیا رپورٹس کی روشنی میں گزشتہ روز طلب کیا اور نازیبا الفاط کے استعمال پر ان کی سرزنش کرتے ہوئے انہیں بیان حلفی جمع کرانے کا حکم دیا، اس سے دو روز قبل الیکشن کمیشن نے عمران خان کی جانب سے بھی غیر مہذب زبان استعمال کرنے پر سماعت کی تھی، جس میں عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے کمیشن کے چار رکنی بینچ کے روبرو عمران کی جانب سے آئندہ غیر مہذب زبان استعمال نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی، تاہم انہوں نے عمران کے مؤقف کی تائید میں کہا کہ کسی کو گدھا کہنا اتنی معیوب بات نہیں جتنی سمجھی جا رہی ہے، یہ معمولی بات ہے، آخر اساتذہ بھی تو اپنے شاگردوں کو گدھا کہہ دیتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے رکن الطاف ابراہیم نے انہیں بتایا کہ استاد کا مرتبہ اور ہے، جس کا موازنہ سیاسی رہنماؤں کے بیانات سے ہرگز نہیں کیا جا سکتا۔ بابر اعوان نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نواز لیگ کے رہنما اور اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے ادا کئے گئے نازیبا الفاظ کی ویڈیو کلپ بھی کمیشن اراکین کے روبرو چلا دی، جس پر الیکشن کمیشن اراکین نے انہیں بتایا کہ ایاز صادق اور دیگر کو بھی نوٹسز جاری کئے جا رہے ہیں اور پھر گزشتہ کل اس حوالے سے ایاز صادق، پرویز خٹک اور مولانا فضل کو بھی آئندہ غیر مہذب الفاظ کی ادائیگی نہ کرنے کے حوالے سے اپنے اپنے بیان حلفی جمع کرانے کی ہدایت کی گئی۔
گستاخی معاف! الیکشن کمیشن کی جانب سے بڑی سیاسی جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں کو بدکلامی و بد تہذیبی سے روکنے، تنبیہ کرنے اور سرزنش کے لئے یوں طلب کیا گیا، جیسے پرائمری اور سکینڈری جماعت کے بچوں کو آپس کی لڑائی کے بعد نصیحت کے لئے پی ٹی ماسٹر کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ یہ بات بجائے خود ہمارے سیاست دانوں کے لئے باعث شرم ہونی چاہئے نہ کہ باعث فخر۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی فکر میں بد کلامی کے مقابلے میں شریک ہمارے سیاسی رہنما ایک لمحے کو بھی یہ نہیں سوچتے کہ ان کے اس طرز عمل سے ملک و قوم کے علاوہ بیرون ملک رہنے والی پاکستانی کمیونٹی کو وہاں کے لوگوں کے سامنے کس اذیت و ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کاش! ہماری سیاسی لیڈر شپ خود کو ایسی ’’سیاہ سی ڈرامے بازیوں‘‘ سے محفوظ رکھ سکے۔
(وما توفیقی الاباللہ)
Next Post