ایک ہی راگ

0

نگراں حکومت کی اقتصادی صورت حال پر قابو پانے میں شدید ناکامی کوئی تعجب خیز اور حیرت انگیز بات نہیں ہے، کیونکہ یہ خود ماضی کی دو بدترین و بدعنوان حکومتوں کے اتفاق رائے سے بنی ہے۔ اس کی اپنی کوئی پالیسی ہے نہ کوئی ترقیاتی منصوبہ۔ عبوری حکومت کے لیے یوں بھی یہ ممکن نہیں ہوتا۔ نگراں حکومت کی سیاسی ناکامیوں سے قطع نظر، اس سے عوام نے یہ توقعات وابستہ کر لی تھیں کہ وہ سابقہ حکمرانوں کے عوام دشمن معاشی اقدامات پر عملدرآمد کرنے اور ان میں اضافے کے بجائے، کم از کم انہیں روکنے میں تو کامیاب ثابت ہو گی۔ فطرت اور ہماری روایتی سیاست کا یہ قانون بہرحال اپنی جگہ برقرار ہے کہ بدعنوان لوگ اتفاق رائے سے جس گروہ کو اپنی نمائندگی کے منصب پر بٹھائیں گے، وہ گروہ ان ہی جیسے اعمال و افعال کا مرتکب ہو گا اور ان کے مقاصد و مفادات کی تکمیل کے لیے کام کرے گا۔ سابقہ دو حکومتوں نے دس سال کے دوران جہاں قومی سیاست میں اخلاق و کردار سے عاری لوگوں کو حکومتی اداروں پر مسلط کیا، وہیں ذاتی و گروہی لوٹ کھسوٹ کے لیے اسحاق ڈار جیسے انتہائی بدعنوان افراد کو معیشت اور اداروں کی تباہی کے لیے کھلی چھوٹ دی۔ پاکستان کی معیشت کو شدید نقصان پہنچانے والا یہ شخص ملک سے فرار ہوا تو بھلا چنگا تھا، لیکن اپنے خلاف کرپشن کے سنگین مقدمات کے خوف سے بیمار ہو کر وہ ایک اسپتال کے پلنگ پر جا لیٹا اور اسے نہ جانے کون کون سی بیماریاں لاحق ہو گئیں۔ اسی دوران لندن کے شہریوں نے اسے تیز قدموں سے چلتے اور صحافیوں سے بچ کر بھاگتے بھی دیکھا ہے۔ اہل وطن ملک کو لوٹنے والوں کے خلاف احتساب اور چیونٹی کی رفتار سے جاری عدالتی کارروائیوں پر انگشت بدنداں ہیں۔ ان سے پوچھ گچھ کرنے والے ادارے اپنی قانونی مجبوریوں کا سہارا لیتے دکھائی دیتے ہیں، جبکہ اشد ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ ملک کو معاشی طور پر تباہ و برباد، کھوکھلا اور کنگال کرنے والی ماضی قریب کی دو حکومتوں کے ایک ایک ذمے دار کو پکڑ کر قوم کی لوٹی ہوئی دولت ان کے پیٹ اور حلق سے نکلوا کر غیر ملکی قرضے ادا کریں، ڈیم بنائیں اور ترقیاتی کاموں پر خرچ کریں۔ ملک کو اندرونی و بیرونی خطرات سے محفوظ رکھنے پر مامور ادارے معاشی دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے آئین و قانون میں گنجائش نکالیں اور اعلیٰ عدالتیں چھوٹی موٹی باتوں کی طرح ملک کو شدید اقتصادی بحران سے دوچار کرنے والوں کے خلاف فوری اور سخت نوٹس لے کر ان معاملات کو جلد از جلد نمٹائیں۔ فی الوقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ معاشی دہشت گردی ہے، جس سے فوج اور عدلیہ ہی مشترکہ طور پر نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ عام انتخابات کے نتیجے میں چور، ڈاکو اور لٹیرے ایک بار پھر ملک پر مسلط ہو گئے تو ان کے فوج اور عدلیہ کے پر کاٹ دینے کے ارادے پہلے ہی سامنے آچکے ہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں آئینی ترامیم یا قانون سازی کر لی تو بیس کروڑ مظلوم و بے کس عوام کی آواز سننے اور ان کی داد رسی کرنے والا کوئی باقی نہ بچے گا۔ ایسے حالات میں خونی انقلاب ہی کسی قوم کا مقدر ہوتا ہے۔
پاکستان کا تجارتی خسارہ ایک سال میں چھبیس ارب سے بڑھ کر اکتیس ارب ڈالر ہو گیا ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے حکومتی ماہرین معاشیات کو روپے کی قیمت میں کمی کرنے اور عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ بڑھانے کے سوا کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قومی معیشت کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومتیں جن افراد پر اعتماد کرتی ہیں، وہ اسحاق ڈار جیسے لٹیرے اور ڈاکٹر شمشاد اختر جیسے ناکام لوگ ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر شمشاد اختر کی واحد خوبی یہ ہے کہ وہ پاکستان میں سود خور عالمی مالیاتی اداروں کی نمائندگی کرتے ہوئے ان ہی کا ایجنڈا پورا کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اس وقت وہ پاکستان کی نگراں وزیر خزانہ ہیں، جبکہ اس سے قبل انہیں اسٹیٹ بینک کی گورنر ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ ملک میں ایک سے بڑھ کر ایک قابل اور محب وطن ماہر اقتصادی امور موجود ہے۔ کوئی ملک معاشی بحران کا شکار ہو اور دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا ہو تو وطن سے محبت کا اولین تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ایسے ماہرین کو یکجا کر کے ان کی مدد سے بحران پر قابو پانے کا قابل عمل منصوبہ تیار کیا جائے۔ پاکستان کے ماہرین نے دنیا کے کئی ملکوں میں خدمات انجام دے کر ان کی معیشت کو ترقی کے بام عروج پر پہنچا دیا ہے۔ ہمارے حکمرانوں، سیاست دانوں اور دیگر مفاد پرست عناصر نے ان کی خدمات حاصل کرنا تو درکنار، انہیں ملک کے اقتصادی معاملات سے ہمیشہ دور رکھنے کی کوشش کی ہے۔ کوئی تصور کر سکتا ہے کہ جولائی سے نئے بجٹ کا آغاز ہوتا ہے، لیکن ہمارا ملک اسی مہینے میں منی بجٹ لانے پر غور کر رہا ہے۔ مقتدر و متمول طبقوں کے لیے بیرونی ممالک سے منگوائی جانے والی اشیائے تعیش (برآمدات) کی وجہ سے قومی معیشت کا توازن ہمیشہ بگڑا ہوا رہتا ہے، جس کا نتیجہ ایک طرف ملکی کرنسی پر شدید دبائو کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے تو دوسری جانب مہنگائی کا طوفان آئے دن غریبوں کی زندگی کو تہہ و بالا کرتا ہے۔ حکمرانوں اور امیر طبقوں کو روپے کی بے قدری سے کچھ فرق پڑتا ہے نہ وہ مہنگائی سے متاثر ہوتے ہیں۔ حکومتی حلقوں کے معاشی بقراط اس غور و فکر میں غلطاں و پیچاں دکھائی دے رہے ہیں کہ بڑھتے ہوئے درآمدی بل میں کمی لانے کے لیے ایک فیصد کسٹم ڈیوٹی یا ساڑھے پندرہ سو سے زائد اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کر کے تجارتی خسارہ پورا کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے نتیجے میں پاکستانی کرنسی کی قیمت میں کمی اور مہنگائی کا جو طوفان آئے گا، اس سے نمٹنا منتشر عوامی مینڈیٹ کی حامل آئندہ حکومت کے بس میں نہ ہوگا۔ اس وقت جو سیاسی جماعتیں انتخابی میدان میں فعال نظر آتی ہیں، ان میں سے دو بڑی پارٹیاں پہلے ہی اقتصادی زبوں حالی کی ذمے دار ہیں۔ ان سمیت متوقع طور پر جیتنے والی کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کی صفوں میں قابل ذکر اور محب وطن ماہرین معاشیات نظر نہیں آتے۔ گویا عام انتخابات کے بعد بھی مالی انتشار اور اقتصادی بے یقینی کی کیفیت طاری رہے گی اور آنے والی حکومت، ماضی کی تمام حکومتوں کی طرح ایک ہی راگ الاپتی ہوئی دکھائی دے گی کہ ’’ہم کیا کریں، سابقہ حکومت قومی خزانہ خالی اور اداروں کو تباہ کر کے گئی ہے۔ ہمیں ورثے میں بربادی کے سوا کچھ نہیں ملا ہے۔‘‘ ٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More