اسلام آباد (نمائندگان امت) انسداد منشیات کی خصوصی عدالت نے ایفیڈرین کوٹا کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے عام انتخابات میں عوامی مسلم لیگ کے صدر شیخ رشید کے مد مقابل نواز لیگی امیدوار حنیف عباسی کو عمر قید کی سزا سنادی ہے۔ 6 برس پرانے کیس کا فیصلہ انتخابات سے چند روز پہلے دینے کی ہدایت ہائیکورٹ نے اورکزئی کی پٹیشن پر دی تھی۔ حلقے میں متبادل لیگی امیدوار نہ ہونے سے عمران کے اتحادی شیخ رشید کو فائدہ ہونے کا امکان ہے۔ ہفتہ کو رات 11 بجے سنائے گئے فیصلے کے تحت پی پی رہنما یوسف رضا گیلانی کے بیٹے سمیت 7 شریک ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا گیا۔ عدالت سے سزا پانے کے بعد حنیف عباسی الیکشن لڑنے کیلئے نااہل بھی ہوگئے ہیں اور این اے 60 میں نواز لیگ کے پاس کوئی امیدوار نہیں رہا۔ ہفتہ کو سارا دن انسداد منشیات کی عدالت میں لیگی کارکنوں کا ہجوم رہا، جنہوں نے فیصلے کے بعد شدید احتجاج اور نعرے بازی کی۔ کارکنوں نے نواز لیگ کے رہنما کی گرفتاری روکنے کی کوشش کرتے ہوئے مزاحمت بھی کی۔ اس پر کمرہ عدالت کو کنڈی لگا دی گئی۔ اے این ایف اہل کاروں نے حنیف عباسی کو کمرہ عدالت سے گرفتار کر کے جیل منتقل کر دیا۔ عدالتی فیصلے کے بعد حنیف عباسی کا کہنا تھا کہ انہیں کوئی شرمندگی نہیں۔ فیصلہ اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج کروں گا۔ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ حنیف عباسی کو الیکشن لڑنے دیا جائے۔ میں انہیں انتخابی معرکے میں ہرانا چاہتا ہوں۔ ایفی ڈرین کیس 6سال تک زیر سماعت رہا۔ اس دوران 36گواہوں نے بیانات قلم بند کرائے۔ کیس کی سماعت کے دوران 5جج تبدیل ہوئے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے انسداد منشیات کی خصوصی عدالت کو 16جولائی سے روزانہ بنیاد پر سماعت کا حکم دیا تھا۔ عدالت عالیہ کے فیصلے کیخلاف رجوع کرنے پر سپریم کورٹ نے خصوصی عدالت کو 21جولائی کو فیصلہ سنانے کا حکم دیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز لیگ حلقے میں حنیف عباسی کے کورنگ امیدوار کی دستبرداری کی وجہ سے کوئی مضبوط آزاد امیدوار نہ ہونے کے باعث پیپلز پا رٹی کے امیدوار مختار عباس کی حمایت کا اعلان کر سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن کے ذرائع کے مطابق نواز لیگ کسی اور آزاد امیدوار کی حمایت کرے تو اسے شیر کا نشان مل سکتا ہے۔ تفصیلات کے مطابق انسداد منشیات کی خصوصی عدالت کے جج سردار محمد اکرم خان نے ایفی ڈرین کوٹہ کیس میں عمر قید کی سزا سنادی ہے، جبکہ باقی7 ملزمان 7ملزمان باسط عباسی، سراج عباسی، رانامحسن، غضنفت، احمد بلال اور نزاکت خان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا ہے۔ ہفتہ کو حنیف عباسی کے وکیل تنویر اقبال نے 12 بجے کی عدالتی ڈیڈ لائن میں حتمی دلائل مکمل کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ اے این ایف ایفی ڈرین کے غیر قانونی استعمال کی بات کرتی ہے، مگر اس نے کوئی ٹھوس شہادت نہیں دی۔ ایفی ڈرین سے تیار دوائیں بیچی جانے کا بینک ریکارڈ موجود ہے۔ اے این ایف نے ادھورا ریکارڈ دیا و لیبارٹری رپورٹ دی۔گولیوں کی پروڈکشن اور ان میں ایفیڈرین کی مقدار بتائی گئی۔ انہوں نے اس موقع پر سیلز و بینک ٹرانزکشن کا ریکارڈ بھی پیش کیا۔ فریقین کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کر تے ہوئے 3سے4 گھنٹے میں سنانے کا اعلان کیا۔ ساڑھے3 بجے جج فیصلہ سنانےپہنچنے تو کمرہ عدالت میں نواز لیگی کارکنان کا رش لگ گیا۔ جس پر عدالت نے تمام افراد کو کمرہ عدالت سے نکالنے کا حکم دیا۔ کمرہ عدالت سے پہلے صحافیوں کو نکالا گیا، تاہم احتجاج پران کو عدالت جانے کی اجازت دیدی گئی۔ لوگوں کے شدید رش کی وجہ سے کمرہ عدالت میں حبس کی سی کیفیت پیدا ہو گئی۔ اسی دوران ایک بکتر بند گاڑی عدالت کے عقبی دروازے پر پہنچ گئی۔ اے این ایف اور پولیس اہلکاروں نے کچہری سے باہر جانے والے راستے بھی بند کر دیئے۔ حنیف عباسی کیخلاف فیصلے کو نواز لیگ نے سیاسی قوت کا مظاہرہ بنا دیا۔ نواز لیگ کی مقامی قیادت حنیف عباسی سے یکجہتی کیلئے کمرہ عدالت میں موجود رہے۔ ان میں چوہدری تنویر، سردار نسیم، سردار ندیم، ضیا اللہ شاہ، زیب النسا اعوان و دیگر رہنما، مختلف یونین کونسلوں کے چیئرمینوں کی ایک بڑی تعداد عدالت پہنچی تھی۔ اس موقع پر حنیف عباسی کے چہرے پر پریشانی عیاں تھی۔ فیصلہ ساڑھے 10 گھنٹے تک ملتوی ہوتا رہا۔ اس دوران نواز لیگی کارکنان مسلسل نعرے بازی کرتے رہے۔ فیصلے میں تاخیر ہوتے ہوتے رات کے ساڑھے10بج گئے اس دوران عدالت کی جانب سے بتایا گیا کہ 10منٹ بعد فیصلہ جاری ہوگا۔ پھر وہ 10منٹ بھی گزر گئے۔ اس دوران نواز لیگی رہنما و ورکرز اور میڈیا انتظار کرتا رہ گیا۔ آخر کار عدالت نے محفوظ کیا گیا فیصلہ رات 11بجے سنایا، جس پر کمرہ عدالت میں موجود 300 کے قریب لیگی کارکنوں نے شدید احتجاج کیا اور نعرے بازی کی۔ لیگی کارکنان عدالت کے باہر وقفے وقفے سے میاں دے نعرے وجن گے۔ حنیف عباسی شیر ہے، شیر ہے ۔’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے لگاتے رہے۔ نواز لیگی کارکنوں نے حنیف عباسی کی گرفتاری روکنے کے لئے مزاحمت بھی کی تاہم اے این ایف اہلکار حنیف عباسی کو گرفتار کر کے عقبی دروازے سے لے گئے۔ عمر قید کی سزا پانے کے بعد حنیف عباسی الیکشن لڑنے کیلئے دستور کی دفعات 62 اور 63 کے تحت نااہل ہو گئے ہیں۔ حنیف عباسی این اے 60 راولپنڈی سے قومی اسمبلی کے حلقے سے امیدوار تھے۔ ایفی ڈرین کیس کی سماعت پہلے 2 اگست تک ملتوی ہو گئی تھی، جس پر حنیف عباسی کو یقین ہو گیا کہ معاملہ الیکشن کے بعد تک چلا گیا ہے، لہٰذا انہوں نے اپنا کورنگ امیدوار بھی دستبردار کرا دیا۔ تاہم بعد ازاں مختلف معاملات پر پٹیشنز دائر کرنے کے لیے مشہور شاہد اورکزئی نے (جو تجزیہ نگاروں کے بقول کیس میں فریق ہی نہ تھے) لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بنچ میں درخواست دائر کر دی اور ان کی درخواست پر ہائی کورٹ نے انسداد منشیات کی خصوصی عدالت کو 16 جولائی سے سماعت شروع کر کے 21 جولائی کو فیصلہ دینے کی ہدایت کی۔ حنیف عباسی نے فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا، لیکن ان کی رٹ خارج کر دی گئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز لیگ حلقے میں اپنا کوئی مضبوط آزاد امیدوار نہ ہونے کے باعث پیپلز پارٹی کے امیدوار مختار عباس کی حمایت کرسکتی ہے۔ الیکشن کمیشن کے ذرائع کے مطابق نواز لیگ کسی آزاد امیدوار کی حمایت کرے تو اسے شیر کا نشان مل سکتا ہے۔ صحافی حامد میر کے مطابق حنیف عباسی کے کیس میں ان پر منات بیچنے کا تو الزام ہے لیکن یہ منشیات کس کو بیچی گئی اس کا ذکر نہیں جبکہ حنیف عباسی نے اپنی فیکٹری میں ایفی ڈرین سے تیار ہونے والی ادویات جن کمپنیوں کو فروخت کی تھیں ا ن کے شواہد پیش کیے تھے۔ صحافی مظہر عباس کے مطابق فیصلہ دن میں آتا تو اپیل کی جاسکتی تھی تاہم اب پیر سے پہلے اپیل دائر بھی نہیں ہوسکتی۔ دوا بنانے والی کمپنیوں کو ایفی ڈرین کا کوٹہ دینے میں ہوشربا بے ضابطگیوں کا انکشاف مارچ 2011 میں اس وقت کے وفاقی وزیر صحت مخدوم شہاب الدین نے قومی اسمبلی میں کیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ 2 کمپنیوں کو 9 ہزار کلو گرام ایفی ڈرین کا کوٹہ دیا گیا جوکہ زیادہ سے زیادہ 5 سو کلو دیا جاسکتا ہے۔ اس انکشاف کا اس وقت کے چیف جسٹس چوہدری محمد افتخار نے از خود نوٹس لیا۔ اینٹی نارکوٹکس فورس نے مقدمے میں اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی موسیٰ گیلانی کو بھی نامزد کیا۔ کیس کا دائرہ کار بڑھاتے ہوئے اے این ایف نے 27 جولائی 2012ء کو حنیف عباسی کخلاف چالان جمع کرایا تھا، جس میں الزام عائد کیا گیا کہ حنیف عباسی اور ان کے بھائی نے اپنی فارما سیوٹیکل کمپنی کیلئے 2010 میں ضرورت سے زیادہ ایفی ڈرین الاٹ کرائی تھی لیکن 2برس گزرنے پر بھی اس کا استعمال نہیں کیا گیا۔ اے این ایف نے الزام عائد کیا تھا کہ حنیف عباسی اور ان کے بھائی نے ایفی ڈرین منشیات فروشوں کو بیچی ہے۔ سزا سنائے جانے کے بعد نجی ٹی وی سے گفتگو میں نواز لیگی رہنما حنیف عباسی نے کہا کہ اس کیس میں مجھے کوئی شرمندگی یا مایوسی نہیں۔ میں خوشی سے جیل جا رہا ہوں۔ فیصلہ ہائی کورٹ میں چیلنج کروں گا۔ حنیف عباسی کے بارے میں فیصلہ سنائے جانے کے موقع پر پنجاب پولیس کے 200 سے زائد اہل کار، ایلیٹ فورس کا دستہ اور اے این ایف کے 50سے زائد اہلکار اپنی 15سے زائد گاڑیاں کے ہمراہ عدالت کے باہر موجود تھے۔ اے این ایف کے کمانڈوز بھی پولیس کے ساتھ مل کر عدالت کے عقبی دروازے پر تعینات رہے۔ دریں اثنا عوامی مسلم لیگ کے صدر شیخ رشید احمد نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ ایفی ڈرین کیس کے فیصلے سے قطع نظر حنیف عباسی کو الیکشن لڑنے دیا جائے، میں انہیں ووٹ کی طاقت سے ہرانا چاہتا ہوں۔ ایم ایم اے کا امیدوار ہمارے حق میں دستبردار ہو چکا ہے۔ تحریک انصاف کلین سویپ کرے گی، اب پاکستان مسلم لیگ ن کا دور ختم ہو چکا ہے۔