سروے کمپنیاں تجارتی میدان کے ساتھ ساتھ سیاسی میدان میں بھی جگہ بنا چکی ہیں۔ وہ کسی بھی سیاسی جماعت کی فرمائش پر ایسے سروے جاری کرتی ہیں، جو دراصل اس جماعت کی حمایت میں جاتے ہیں۔ ظاہر ہے سروے کمپنیاں اس کام کا بھاری معاوضہ لیتی ہیں۔ اعداد و شمار کی اس جادوگری سے پردہ سب سے پہلے ڈیرل ہف نے اٹھایا تھا۔ ان کی کتاب How to Lie with Statistics اس موضوع پر مستند ترین کتابوں میں سے ایک ہے۔ اس کتاب کے تیس سے زائد انگریزی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں اور دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ موجودہ الیکشن کے تناظر میں اس کتاب کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ (ادارہ)
اگر آپ ناراض نہ ہوں تو ہم آپ کو دو بچوں سے نوازنے کے ذریعے ایک مثال کا آغاز کریں گے۔ اسکول کے دیگر بچوں کی طرح آپ کے بچوں پیٹر
اور لنڈا کو بھی آئی کیو ٹیسٹ یعنی ذہانت کی آزمائش سے گزارا گیا ہے اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ذہانت کا یہ ٹیسٹ آج کے دور میں کسی کو بھی بقراط یا بدھو ثابت کرنے کا سب سے مشہور ذریعہ ہے۔ اس عقل کی بات کو ایک طرف رکھ دیجئے کہ صرف نفسیاتی ماہرین اور اساتذہ کی زیر نگرانی لیا گیا ذہنی استطاعت کا کوئی ٹیسٹ ہی قابل بھروسہ ہو سکتا ہے۔
بہر حال اس ٹیسٹ کے نتیجے میں آپ کو بتایا جاتا ہے کہ پیٹر کا آئی کیو لیول یعنی ذہانت کی سطح 98 ہے، جب کہ لنڈا کا آئی کیو 101 ہے اور بلاشبہ آپ جانتے ہیں کہ آئی کیو کی اوسط یا ’’نارمل‘‘ سطح 100 ہے۔ آپ کہتے ہیں، آہا، لنڈا تو میری ذہین بچی ہے۔ مزید یہ کہ وہ اوسط سطح سے اوپر ہے، جب کہ پیٹر، وہ تو اوسط سے بھی کم تر ہے۔
اس طرح جہاں آپ شعوری یا لاشعوری طور پر اپنے دونوں بچوں کے درمیان امتیاز کرنے لگتے ہیں، وہیں آپ کے ذہن میں تفکر بھی جنم لینے لگتا ہے کہ کہیں یہ فرق آپ کے بیٹے کی طرف سے تعلیم کے بجائے کھیل کود میں زیادہ دلچسپی لینے کا نتیجہ تو نہیں ہے؟ کیا اس فرق کو دور کرنے کے لیے اس کے کھیلنے کے اوقات میں کمی اور پڑھائی کے اوقات میں اضافہ کرنا بہتر نہیں ہوگا؟
جب کہ دوسری طرف جب یہ ا عداد وشمار خود پیٹر اور لنڈا کے علم میں آئیں تو ان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ شاید پیٹر کی خود اعتمادی کو ٹھیس پہنچے اور وہ اپنی بہن کے مقابلے میں خود کو کم عقل تصور کرتے ہوئے اس سے دانستہ یا دانستہ اجنبیت برتنے لگے اور انتہائی صورت میں بغض و کینہ پر اترآئے۔ دوسری طرف لنڈا غیر ضروری طور پر اپنے آپ کو اپنے بھائی سے ذہنی اعتبار سے برتر سمجھنے لگے اور ان دونوں کے درمیان ہمیشہ سے موجود محبت کا رشتہ کمزور پڑ جائے۔
اب اسی معاملے کو ذرا آگے لے جا کر سوچئے۔ اگلے ماہ دونوں بچوں کے وسط میعاد کے امتحانات ہوتے ہیں، جن میں لنڈا محض اوسط درجے میں پاس ہو پاتی ہے، جب کہ پیٹر اپنے ہم جماعتوں میں امتیازی درجہ پانے میںکام یاب رہتا ہے۔ ایسے میں اس آئی کیو ٹیسٹ کے نتائج مذاق نہیں بن جائیں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ ایسے نتائج سراسر احمقانہ ہوتے ہیں!
معاملے کی دھند صاف کرنے کے لیے، پہلے تو یہ بات ذہن نشیں کرلیں کہ ایسے کسی بھی ’’ذہانت کے ٹیسٹ‘‘ میں جو پیمانے استعمال کیے جاتے ہیں، ان کا ذہانت کے عمومی مفہوم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ مثلاً ایسے کسی ٹیسٹ میں قائدانہ صلاحیت اور تخلیقی سوچ جیسی اہم صفات کو سرے سے نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ ان میں سماجی شعور یا موسیقی اور مصوری جیسے رجحانات کی کوئی جانچ نہیں ہوتی اور نہ ہی جاں فشانی اور جذباتی توازن جیسے شخصی خواص پر کوئی بات کی جاتی ہے۔
اور ان سب سے بڑھ کر، اسکولوں میں لیے جانے والے اکثر آئی کیو ٹیسٹ اس سستے اور تیز رفتاری سے مکمل کیے جانے والے گروپ سے تعلق رکھتے ہیں جن کا زیادہ انحصار پڑھنے کی سہولت پر ہوتا ہے اور پڑھنے میں کمزور بچے خواہ وہ ذہین ہوں یا گاؤدی، ان کے اچھے نمبر حاصل کرنے کا کوئی چانس نہیں ہوتا۔
چلیں ہم یہ سب معروضات نظر انداز کرکے آئی کیو ٹیسٹ کو ذہانت کی جانچ کرنے والا اہم قابل ذکر پیمانہ تسلیم کرلیتے ہیں اور یہ بھی فرض کرلیں کہ پیٹر اور لنڈا کے لیے ٹیسٹ کی بہترین قسم کا انتخاب کیا گیا تھا اور اسے انفرادی طور پر لیا گیا تھا اور اس میں مطالعے کی صلاحیت پر کوئی خصوصی زور نہیں دیا گیا تھا۔ تب بھی اگر آئی کیو ٹیسٹ سے مراد ذہانت کی سیمپلنگ ہے تو سیمپلنگ کے کسی بھی دوسرے طریقے کی طرح اس کے اعداد و شمار میں غلطی کی گنجائش ہونی چاہئے، جو اس کے درست اور قابل اعتماد ہونے یا نہ ہونے کی نشان دہی کرتی ہے۔ بالفرض اس ٹیسٹ کے نتائج میں غلطی کی گنجائش تین فی صد ہو تو پیٹر کی ذہانت کی سطح 98 سے تین نمبر کم یا تین نمبر زائد دونوں ہو سکتی ہے، بالکل اسی طرح لنڈا کا آئی کیو لیول 101+3 بھی ہو سکتا ہے اور 101-3 بھی۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ پیٹر کا آئی کیو لیول95 سے لے کر101 تک کچھ بھی ہو سکتاہے، اسی طرح لنڈا کا آئی کیو98 ہونے کا ففٹی ففٹی چانس ہے۔ اسی طرح ایک امکان یہ بھی ہے کہ درحقیقت پیٹر کا آئی کیو لیول101 ہو اور لنڈا کا آئی کیو لیول98۔ ایسی صورت میں وہ ذہانت میں لنڈا سے کم تر نہیں، بلکہ تین پوائنٹس سے برتر قرار پائے گا۔
اس سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سیمپلنگ کے دیگر طریقوں کی آئی کیو کے قابل قبول ٹھہرنے کی واحد صورت میں یہی ہے کہ اسے رینج (حد) کے اعتبار سے جانچا جائے۔ یعنی اس میں ’’نارمل‘‘ حد 100 نہیں، بلکہ 90 اور 110 کی درمیانی رینج ہے۔ اس کے بعد ہی کسی بچے کو اوسط سے کم یا زیادہ ذہانت کا حامل قرار دینا مناسب ہوگا۔ اتنے چھوٹے اعداد کے فرق سے کسی کو برتر یا کم تر قرار دینا بے معنی ہوتا ہے۔ (جاری ہے)
Prev Post
Next Post