ٹرمپ کے یوٹرن

0

ہائیڈ پارک

شیراز چوہدری
ٹرمپ کے صدر بننے پر ہم نے لکھا تھا کہ یہ کچھ کچھ دیسی لگتا ہے، اب تک کے اس کے اقدامات دیکھ کر تو لگتا ہے کہ یہ کچھ کچھ نہیں پورا دیسی لگتا ہے، اس میں پاکستانی سیاستدانوں کی تمام خصوصیات بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں، بلکہ کئی معاملوں میں تو زیادہ ہی پائی جاتی ہیں، اب پاکستان میں عمران خان کو لوگ یوٹرن خان کہتے ہیں، تو ٹرمپ اس معاملے پر کیسے پیچھے رہ جاتے، سو انہوں نے بھی گزشتہ تین چار روز کے دوران اتنے یوٹرن لئے کہ ہمارے یوٹرن خان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا، ٹرمپ حماقتیں نہ کریں، یہ کیسے ہو سکتا ہے، سو ان سے حماقت یہ ہوگئی کہ روسی صدر پیوٹن سے ملاقات کے دوران امریکی انتخابات میں روس کی مداخلت کا معاملہ نہ اٹھایا، بلکہ الٹا پیوٹن کی وضاحت کو تسلی بخش قراد دے دیا، بس پھر کیا تھا، امریکی اسٹیبلشمنٹ فوری حرکت میں آگئی، میڈیا نے بھونچال پیدا کردیا، کانگریس میں ڈیموکریٹ کے علاوہ ان کی اپنی جماعت ری پبلکن کے ارکان بھی کھڑے ہوگئے۔ ٹرمپ پر غداری کے الزامات لگ گئے، وہ واپس واشنگٹن پہنچے تو ان کا ’’استقبال‘‘ گو ٹرمپ گو کے نعروں سے ہوا، ویسے یہ نعرہ بھی آپ کو کچھ سنا سنا ہی لگا ہوگا، اسی طرح امریکی خفیہ اداروں کے افسران نے بھی برہمی کا اظہار کیا کہ ان کے صدر نے دشمن ملک کے سامنے کمزوری کا مظاہرہ کیا ہے اور روس کے بیانئے کو قبول کیا ہے، اس کے ساتھ ہی ایف بی آئی نے ایک مبینہ روسی ایجنٹ ماریا بوتینا کو بھی گرفتار کرنے کا اعلان کردیا، اس پر الزام میں یہ بھی شامل کر دیا کہ وہ جسمانی تعلقات کے بدلے امریکی راز حاصل کرنے کے لئے سرگرم تھی، یہ گرفتاری برہمی کا عملی اظہار تھا اور ٹرمپ کو پیغام تھا کہ روس کے حوالے سے نرمی کی کوئی گنجائش نہیں، روسی ایجنٹ پر جسمانی تعلقات کے بدلے راز کی کہانی پیش کرکے ٹرمپ کو دوسرا پیغام بھی دیا گیا کہ ان پر بھی اسی طرح کے الزامات ہیں، سو مرتا کیا نہ کرتا، ٹرمپ کے تو لگتا ہے ہوش اڑ گئے، انہیں کئی بار یوٹرن لینے پڑے، ایک دن میں تین بار وضاحت نما معافی مانگنی پڑی، اپنی خفیہ ایجنسیوں کی تعریف کے پل باندھ دئیے، یہ کہنا پڑا کہ وہ سابقہ صدور کے مقابلے میں روس کے حوالے سے زیادہ سخت ہیں، مزید پابندیوں کا بھی عندیہ دینا پڑا۔ کیوں کہ ٹرمپ جانتے تھے کہ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو امریکی اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ کیا کرے گی، صدر کینیڈی تو انہیں یاد ہی ہے، جن کے قتل کی تمام فائلیں انہوں نے جاری کرنے کا اعلان کیا تھا، لیکن اس پر بھی یوٹرن لینا پڑا اور خاموش ہوگئے، اس لئے ٹرمپ نے یوٹرن لینے میں ہی عافیت سمجھی۔
ویسے اس سارے معاملے سے ایک بات ثابت ہوگئی کہ حکمران دیسی ہو یا گورا، ان سب کی خصوصیات اور مجبوریاں ایک جیسی ہوتی ہیں، ٹرمپ نے پیوٹن کی تعریف کسی اور معاملے میں نہیں کی تھی، بلکہ اپنی ذات کو فائدہ پہنچانے کے لئے کی تھی، کیوں کہ روسی مداخلت سے ٹرمپ کو ہی فائدہ پہنچنے کے الزامات ہیں، لیکن اس پر بھی انہیں یوٹرن لینا پڑا۔ ٹرمپ کے دیسی انداز کی بات ہو رہی ہے تو یہ بھی پڑھتے جائیں کہ امریکی اسٹار سٹورمی ڈینئلز جو ماضی کے تعلقات کے حوالے ٹرمپ کو بلیک میل کرنے کی کامیاب کوشش کرچکی ہیں، لیکن پیسے لینے کے باوجود ان کا پیچھا چھوڑنے پر تیار نہیں، انہیں گزشتہ دنوں ایک امریکی کلب سے گرفتار کر لیا گیا تھا اور الزام ایسا ہی بے ہودہ تھا، جیسے سندھ میں کسی دور میں مخالفین کو بکری چوری کے مقدمے میں پھنسا دیا جاتا تھا، لیکن امریکہ پھر امریکہ ہے، وہاں ادارے بہت مضبوط ہیں، اس لئے اسٹورمی نہ صرف باہر آگئیں، بلکہ اب امریکی خفیہ اداروں نے کئی ماہ قبل ٹرمپ کے وکیل کے دفتر پر چھاپے کے دوران برآمد کی گئی ٹیپ کا کچھ مواد بھی لیک کردیا، جس سے ٹرمپ پھنس سکتے ہیں، گویا اس سے ٹرمپ کو یہ پیغام بھی دے دیا گیا کہ اسٹورمی کے پیچھے کون ہے اور اصل میں یہ اداکارہ ٹرمپ کو قابو میں رکھنے کے لئے استعمال کی جا رہی ہے، جہاں انہوں نے حدود سے باہر نکلنے کی کوشش کی یا تو انہیں یوٹرن پر مجبور کردیا جائے گا یا پھر اسٹورمی کے ذریعے ایسا اسٹارم (طوفان) پیدا کیا جائے گا کہ ٹرمپ اس میں بہہ جائیں گے۔ یہ بات طے ہے کہ اب بھی امریکی اسٹیبلشمنٹ کو ٹرمپ کے وائٹ ہاوس میں رہنے پر کچھ نہ کچھ فائدہ نظر آتا ہے، ورنہ وہ فارغ ہو چکا ہوتا، اسٹورمی یا کسی اور کے ذریعے اسٹارم آچکا ہوتا، ٹرمپ سے فائدہ یہ نظر آتا ہے کہ وہ چوں چرا کئے بغیر ان کے سخت سے سخت مطالبات بھی پورا کردیتا ہے۔ اسے قابو رکھنا زیادہ آسان ہے، کیوں کہ اس کی کمزوریاں بہت ہیں، اس لئے ٹرمپ کی حماقتیں بھی برداشت کی جا رہی ہیں، کیوں کہ انہیں یوٹرن کے ذریعے سنبھال لیا جاتا ہے۔
ٹرمپ کی بات ہو اور وائٹ ہائوس سے کسی کے فارغ ہونے کا ذکر نہ ہو، یہ کیسے ہو سکتا ہے، سو وائٹ ہائوس سے ایک اور عہدیدار نیشنل سیکورٹی کی جینیفر ایرنگ وہ تازہ مسافر ہیں، جنہیں سامان سمیٹ کر وہاں سے جانا پڑا ہے، اسی طرح ٹرمپ کی صحافیوں سے لڑائی بھی جاری رہتی ہے، اب وہ یہ لڑائی امریکہ سے باہر بھی لے گئے ہیں، جب لندن میں سی این این کے رپورٹر نے ٹرمپ سے سوال کیا تو انہوں نے جعلی میڈیا قرار دے کر جواب دینے سے انکار کردیا، لندن میں ٹرمپ برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کو بھی مفت میں مشورہ دے آئے کہ یورپ کے ساتھ بریگزٹ پر مذاکرات کے بجائے ان کے خلاف مقدمہ کرو۔ لیکن ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ امریکہ برطانیہ کو کوئی تجارتی ترغیب نہیں دے سکتا، یعنی جاگدے رہنا، ساڈے تے نہ رہنا۔ اس سے پہلے انہوں نے انٹرویو میں بھی روس اور چین کے بجائے یورپ کو سب سے بڑا دشمن قرار دے دیا، تاجر کو سربراہ بنانے سے یہ نقصان ہوتا ہے کہ وہ ہر چیز کو تجارتی نظر سے دیکھتا ہے، ٹرمپ نے یورپ کو اس تناظر میں ہی بڑا دشمن قرار دیا کہ اس کی وجہ سے امریکہ کو زیادہ تجارتی نقصان ہوتا ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More