افغانستان کی جنگ امریکہ کی تاریخ کی طویل ترین جنگ ہے، جو سولہ برسوں سے جاری ہے اور جسے امریکہ آج تک جیت نہیں پایا، بلکہ عملی طور پر امریکہ، افغانستان کی جنگ ہار چکا ہے۔ کیوں جن طالبان کی حکومت امریکہ نے اکتوبر 2001ء میں چند روز کی بمباری کے بعد گرا دی تھی، وہی طالبان اب بھی امریکہ کے لیے ایک سنگین چیلنج بنے ہوئے ہیں اور گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ان کے زیر کنٹرول علاقوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ جنگ ویت نام کی جنگ کے بعد امریکہ کے لیے باعث شرمندگی بنی ہوئی ہے، کیونکہ امریکہ اپنی تمام تر قوت، جدید ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کے باوجود افغان طالبان کو شکست دینے میں ناکام رہا ہے۔
اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ افغانستان کی جنگ القاعدہ کی سرکوبی کے لیے ناگزیر تھی تو امریکہ کو القاعدہ کا قلع قمع کر کے افغانستان سے فوراً نکل جانا چاہئے تھا اور پیچھے تھوڑی تعداد میں فوجی افغانستان میں رکھنے چاہئے تھے، جن کو اپنا کام مکمل کر کے افغانستان سے نکل جانا چاہئے تھا، لیکن امریکہ نے افغانستان میں بھی وہی غلطی دہرائی، جو اس نے صومالیہ میں 1990ء کی دہائی میں کی تھی۔ جب اس نے اقوام متحدہ کی جانب سے فراہم کردہ امداد کو بحفاظت ضرورت مندوں تک پہنچانے کے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیا تھا اور صومالیہ کی سیاست میں ملوث ہو گیا اور نتیجتاً امریکہ کو جانی نقصانات اٹھا کر واپس آنا پڑا تھا۔
امریکہ سولہ برس کی جنگ کے بعد آج بھی Best Course of Action اور Satisfactory Conclusion پر نہیں پہنچ پایا ہے اور ہنوز یہ منزل بہت دور ہے۔ اس موضوع پر بحث کرنے سے قبل افغانستان کی جنگ کی امریکہ نے کیا قیمت ادا کی اور کیا حاصل کیا ہے، اس کا مختصر جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔ افغان جنگ میں اب تک تقریباً 2500 امریکی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ 25000 کے قریب زخمی اور معذور ہوئے ہیں، 38,000 کے قریب افغانی سویلین ہلاکتوں کا شکار ہوئے ہیں۔ صرف 2013ء کے پہلے چھ ماہ کے دوران 1665 افغان سویلین ہلاکتوں کا شکار ہوئے، جو ایک ریکارڈ ہے، جبکہ اس عرصے میں زخمی ہونے والے افغان شہریوں کی تعداد 3600 کے قریب ہے۔ اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو افغانستان کی جنگ ڈھائی لاکھ کے قریب افغان شہریوں کو نگل چکی ہے، جبکہ 26 تا 30 لاکھ افغان بے گھر ہو کر پاکستان اور دوسرے ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ اس کے علاوہ دس لاکھ سے زائد افغانی اپنے ملک میں پناہ کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔
افغانستان کی بے مقصد جنگ میں امریکہ کے اخراجات 785 ارب ڈالرز سے تجاوز کر چکے ہیں، جبکہ کچھ جگہ پر امریکہ کے اخراجات کا تخمینہ ایک کھرب ڈالرز کے قریب لگایا گیا ہے۔ امریکہ نے افغانستان میں جو فوجی تعینات کئے ان میں سے ہر فوجی پر اس نے تقریباً 4 ملین ڈالرز سالانہ کے اخراجات کئے۔ اگر افغان جنگ میں امریکہ کے مجموعی اخراجات کو افغانستان کی 30 ملین آبادی میں تقسیم کیا جائے تو ہر افغان شہری کے حصے میں 33000 ڈالرز آئیں گے، لیکن افغان شہریوں کے حصے میں عملاً ایک ڈالر بھی نہیں آیا اور انہیں اس جنگ سے ہلاکتوں، تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ واضح رہے کہ 2014ء کے اعداد و شمار کے مطابق افغان شہریوں کی سالانہ فی کس آمدنی 670 امریکی ڈالرز تھی۔
امریکہ نے اربوں ڈالرز ایک بے مقصد جنگ کی نذر کر دیئے، جبکہ وہ اس کثیر رقم کو اچھے مقاصد کے لیے بھی استعمال کر سکتا تھا۔ امریکہ کے 21 فیصد شہری جن کی تعداد 15 ملین کے قریب بنتی ہے، خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں امریکی شہریوں کو پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہیں ہوتا اور وہ بھوکے سوتے ہیں، جبکہ لاکھوں کی تعداد میں امریکی شہری بے گھر ہیں اور انتہائی گندے اور غلیظ ماحول میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اگر امریکہ اپنے اربوں ڈالرز جنگ کے بجائے اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کرتا تو نہ ملک میں کوئی غریب ہوتا، نہ ہی بے گھر اور بے یارومددگار اور نہ ہی کسی کو بھوکا سونا پڑتا۔
افغان جنگ میں امریکہ کے اخراجات تو رہے ایک طرف، اس جنگ کا دوسرا پہلو جو انسانی زندگیوں کے اتلاف سے تعلق رکھتا ہے، بے حد بھیانک ہے۔ لیکن اس کے علاوہ امریکہ کو افغان جنگ میں اخلاقی نقصانات کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔ کیونکہ اس جنگ نے امریکہ کی اخلاقی پوزیشن کو بری طرح نقصان سے دوچار کیا ہے اور دنیا بھر میں امریکہ جو اپنی اعلیٰ اخلاقی اقدار کے باعث عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا، اب ایک جارح اور جنگجو ملک کے طور پر شناخت کیا جانے لگا ہے۔ عراق کی بے مقصد اور بدنیتی پر مبنی جنگ نے تو امریکہ اور برطانیہ کی اخلاقی اقدار کو تحت الثریٰ تک پہنچا دیا ہے اور اب اخلاقی اقدار کے حوالے سے امریکہ اور برطانیہ کی کریڈیبلٹی تقریباً ختم ہو کر رہ گئی ہے، کیونکہ عراق کی جنگ کے حوالے سے برطانیہ اور امریکہ کے ہاتھوں پر کلنک کا ٹیکہ لگ چکا ہے، جس کو دھونا ان دونوں کے بس کی بات نہیں رہی۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اپنی متنازعہ شخصیت، غیر سنجیدہ بیانات اور حد سے زیادہ بکواس کرنے کے باعث دنیا بھر میں پہلے ہی انتہائی نچلے درجے پر فائز ہیں۔ ٹرمپ کو مجموعی طور پر عقل و دانش، دور اندیشی اور فہم و فراست سے عاری تصور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے امریکی صدارتی الیکشن میں جو بیانات دیئے تھے، ان سے یوٹرن لیتے ہوئے افغانستان میں مزید چار ہزار فوجیوں کی تعیناتی کا حکم دیا ہے، جبکہ دوران الیکشن ٹرمپ نے افغانستان سے امریکی فوج کی جلد از جلد واپسی کا وعدہ کیا تھا۔ ٹرمپ نے یہ یوٹرن اپنے چیف Strategiet اسٹیو بینن کے کہنے پر لیا تھا، جنہیں اب ٹرمپ نے خود ہی فارغ کر دیا ہے۔
امریکہ کا افغانستان میں مزید چار ہزار فوجی بھیجنے اور افغان جنگ کو جیتنے کے عزم کا اظہار حماقت در حماقت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ کوئی اس سوال کا جواب دے سکتا ہے کہ افغانستان میں ایک وقت میں امریکہ اور ایساف کی مجموعی فوج کی تعداد ایک لاکھ چالیس ہزار سے زیادہ تھی، جسے امریکی اور نیٹو فضائیہ کی مدد بھی حاصل تھی، لیکن امریکہ چودہ برس کے بعد بھی اپنی اس طاقت کے باوجود فتح حاصل نہ کر سکا تو یہ چار ہزار فوجی افغانستان میں امریکی فتح کی راہ کس طرح ہموار کر سکیں گے؟ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ؟ پینٹاگون میں بیٹھے تجزیہ کار، فوجی دماغ اس کی کوئی توجیہ پیش کر سکتے ہیں؟ یقینا نہیں۔ افغانستان میں مزید امریکی فوج کو روانہ کرنے کا مشورہ پینٹاگون نے نہیں دیا، کیونکہ پینٹاگون کو افغانستان کے زمینی حقائق کا ادراک ہے اور اسے اچھی طرح علم ہو چکا ہے کہ افغانستان کی جنگ طاقت کی بنیاد پر نہیں جیتی جا سکتی، اگر جیتی جا سکتی تو برطانیہ اور سوویت یونین کو شکست کا منہ نہ دیکھنا پڑتا اور تاریخ میں ان کا شمار شکست خوردہ ملکوں میں نہ کیا جاتا۔ اب امریکہ کا اندراج بھی تاریخ میں افغانستان کے حوالے سے ایک شکست خوردہ ملک کے طور پر ہو چکا ہے، لیکن امریکہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
اس بات کو اب امریکہ میں بھی تسلیم کیا جانے لگا ہے کہ افغانستان کی جنگ طاقت سے نہیں جیتی جا سکتی اور نہ ہی افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل ہے، لیکن نہ جانے کیوں ڈونالڈ ٹرمپ کو ہی اس حقیقت کا ادراک نہیں، گویا جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ ہے اسٹیوبینن افغانستان کی جنگ جیتنے کا ایک تیر بہدف نسخہ ٹرمپ کو یہ بتا گئے ہیں کہ اس جنگ کو امریکی فوج کے بجائے پرائیویٹ کنٹریکٹرز کے حوالے کر دیا جائے اور بدنام زمانہ بلیک واٹر کے چیف ایریک برلن یہ ذمے داری لینے کو تیار بھی ہیں، کیونکہ انہیں اس کام میں اربوں ڈالرز کی ادائیگی کی جائے گی۔ اگر امریکہ اس آپشن پر عمل کرتا ہے تو اس سے بڑھ کر شرم کی بات کیا ہو گی کہ اپنی فوج کی ناکامی کے بعد کرائے کی فوج کو افغانستان کی جنگ لڑنے کو بھیجے گا، گویا امریکہ اس طرح اپنی فوجی ناکامی کا کھلا اعتراف کرے گا۔ اس فیصلے سے عالمی برادری میں امریکہ کی بچی کھچی عزت اور اخلاقیات کا بھی خاتمہ ہو جائے گا جو اس کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہئے۔
اس قسم کی پرائیویٹ فورسز کو امریکہ بطور سیکورٹی گارڈز یا پھر حراستی مراکز کی سیکورٹی کے لیے استعمال کرتا آیا ہے اور افغانستان میں بھی ایسا کیا گیا ہے، لیکن جنگ کو پرائیویٹ فورس کے حوالے کرنا اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہو گا۔ لیکن یہ خیال رہے کہ اس سے افغانستان کی جنگ ختم نہیں بلکہ بڑھے گی۔ پرائیویٹ فورسز کو علم ہے کہ جنگ چلتی رہے گی تو ڈالرز ملتے رہیں گے، چنانچہ وہ کیوں اس جنگ کو اختتام تک پہنچانے میں کوئی کردار ادا کریں گے؟ مزید یہ کہ پرائیویٹ فورسز جنگی قوانین پر عمل نہیں کریں گی، جس سے خون خرابہ اور خاص کر سویلین کی ہلاکتوں میں اضافہ ہو گا۔ بلیک واٹر نے عراق میں جو کچھ کیا تھا، وہ لوگ ابھی تک بھولے نہیں ہوں گے۔
سابق امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس سے ایک مرتبہ ایک صحافی نے افغانستان کے حوالے سے سوال کیا تھا کہ اس جنگ میں اب امریکی مقاصد کیا ہیں؟ اور افغانستان سے امریکی فوج کی مستقل واپسی کی حکمت عملی کیا ہوگی؟ لیکن امریکی وزیر دفاع نے اس سوال کا جواب نہیں دیا اور وہ اس کا جواب دیتے بھی تو کیا دیتے۔ یہ سوال گزشتہ سولہ برسوں سے مسلسل کیا جا رہا ہے، لیکن کسی امریکی وزیر دفاع کے پاس اس سوال کا جواب نہیں اور جواب ہو بھی تو کیا، امریکہ کو خود یہ معلوم نہیں کہ اس جنگ میں اس نے کیا حکمت عملی اختیار کرنا ہے؟ افواج کی جہاں تک مکمل واپسی کا تعلق ہے تو اس میں امریکہ کی انا سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور وہ یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ افغانستان میں اسے طالبان کے ہاتھوں شکست ہو چکی ہے۔
اگر امریکہ کو افغانستان سے باعزت واپسی کا راستہ درکار ہے تو پھر اسے طالبان سے غیر مشروط طور پر مذاکرات کرنا ہوں گے، اپنی شرائط سے دستبردار ہونا ہو گا۔ بھارت کو افغانستان میں وسیع کردار دینے سے انکار کرنا ہوگا، وہاں اپنی مرضی کی حکومت کے قیام سے دستبردار ہوکر افغانستان کو افغانوں کے حوالے کرنا ہوگا اور قومی حکومت کے قیام میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا، جس میں طالبان کو بھی ان کا جائز حصہ دیا جائے، ورنہ امریکہ کے لیے افغانستان کی دلدل سے نکلنا ممکن نہ ہوگا۔
Prev Post
Next Post