اللہ کریم ہمارے حال پر رحم فرمائے

0

عام انتخابات کے انعقاد میں صرف ایک روز کا وقفہ باقی رہ گیا ہے۔ بدھ پچیس جولائی کو ملک بھر میں جگہ جگہ انتخابی دنگل کے مناظر دیکھنے کو ملیں گے۔ گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں اس سال کی انتخابی مشق و مہم بہت حد تک مختلف ہے۔ تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے قبل از انتخابات دھاندلی (پری پول رگنگ) کے الزامات کی تکرار ہے، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ان میں سے کسی بھی جماعت کو قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت ملنے کی امید نہیں ہے۔ انتخابی نتائج پر اندرونی و بیرونی دباؤ کی داستانیں بھی سنائی جا رہی ہیں۔ اندرونی دباؤ میں کہیں کھلے اور کہیں ڈھکے چھپے انداز میں عدلیہ اور فوج کے ساتھ نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر جیسے اداروں کو گھسیٹا جا رہا ہے کہ انہوں نے ایک آدھ سیاسی جماعت کے خلاف عدالتی کارروائیاں، پکڑ دھکڑ اور گرفتاریاں کرکے اپنے ایک لاڈلے کو برسر اقتدار لانے کا فیصلہ کرلیا ہے، جبکہ درحقیقت مالی دہشت گردی میں ملوث افراد اور خاندانوں کے خلاف بلا امتیاز مقدمات قائم کرکے ان کی سماعت ہو رہی ہے۔ فیصلوں میں تاخیر اور بعض بڑے بڑے لٹیروں کے گرفت میں نہ آنے کی وجہ سے بھی شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔ فوج کی اعلیٰ ترین قیادت اور فوجی ترجمان کی جانب سے بار بار وضاحت کے باوجود بعض حلقے مسلسل الزام تراشی کر رہے ہیں کہ عدالتوں کے ذریعے اور براہ راست بھی ایجنسیاں مداخلت کرکے اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنا چاہتی ہیں۔ ایک طرف سینیٹ کے ارکان کو شکوا ہے کہ دو پارٹیوں کو بطور خاص نشانہ بنایا جارہا ہے۔ امیدواروں اور رائے دہندگان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے اور نگراں حکومت خاموش رہ کر مکمل جانبداری کا مظاہرہ کر رہی ہے، جبکہ الیکشن کمیشن کی خاموشی بھی مجرمانہ ہے۔ دوسری جانب الیکشن کمیشن کی جانب سے بار بار یقین دہانی کرائی جا رہی ہے کہ اس پر کسی کا دباؤ نہیں۔ فوج اور عدلیہ سمیت تمام ادارے انتخابی عمل میں مکمل تعاون کر رہے ہیں۔ عوام پر کسی مخصوص شخص، گروہ، خاندان یا پارٹی کے حق میں کسی جانب سے دباؤ کا ایک ثبوت بھی اب تک سامنے نہیں آیا ہے۔ اعلیٰ سطح پر اگر کوئی کھچڑی پک رہی ہو تو عوام اس سے لاتعلق اور لاعلم ہیں۔ انہیں تو پردے کے پیچھے جا کر اپنے پسندیدہ امیدوار کے حق میں ووٹ ڈالنا ہے، جہاں عالم الغیب ذات الٰہی کے سوا دیکھنے والا کوئی نہ ہوگا۔ مخصوص سیاسی جماعت یا امیدوار کے حق میں بیرونی دباؤ کے لئے حسب سابق اور حسب عادت امریکا پر الزام عائد کیا جا رہا ہے۔ اس وقت عالمی حالات اور ملکی صورتحال ایسی ہے کہ امریکا اگر پاکستان میں اپنی پسند کی کوئی حکومت لانا چاہے تب بھی کامیاب نہیں ہو سکتا، کیونکہ ایک آدھ خاندان یا سیاسی جماعت کے سوا ملک بھر کے عوام اور اکثر محب وطن سیاسی جماعتیں امریکی پالیسیوں کی شدید مخالف ہیں۔ ثبوت و شواہد کے بغیر معتمد ترین ملکی اداروں پر انتخابات میں مداخلت کا الزام لگانے والے دراصل پیش بندی کے طور پر یہ سب کہہ رہے ہیں۔ کسی ایک جماعت کو اکثریت حاصل ہونا بعید از امکان ہے، اس لئے انتخابات کے بعد واویلا اور احتجاج کرنے کے لئے پیشگی پروپیگنڈا کیا جارہا ہے تاکہ یہ کہہ سکیں: ’’دیکھو ہم نہ کہتے تھے کہ انتخابات صاف و شفاف نہیں ہوں گے۔ اگر ایسا ہو جاتا تو معلق پارلیمنٹ وجود میں نہ آتی اور ہم یقیناً حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہوتے‘‘۔
بے شمار سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کی موجودگی میں ووٹوں کا بری طرح تقسیم ہونا، چند فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہونے والے امیدواروں کا مختلف جماعتوں اور گروہوں سے وابستہ ہونا اور آزاد ارکان اسمبلی کا لوٹوں کی طرح ادھر ادھر لڑھک کر اپنی بولی میں اضافہ کرانا پاکستان کے عوام اور ساری دنیا کو صاف نظر آرہا ہے۔ ایسے میں کسی ایک جماعت کی مضبوط و مستحکم حکومت کا تصور محال ہے۔ اسی لئے مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف سمیت سب جماعتیں اکثریت کے حصول سے مایوس نظر آتی ہیں۔ وہ ایک طرف حکومت کی تشکیل کے سہانے خواب خود بھی دیکھ رہی ہیں اور اپنے حامی ووٹروں کو بھی دکھا رہی ہیں تو دوسری جانب اپوزیشن میں بیٹھنے کا عندیہ بھی دے رہی ہیں۔ میاں نواز شریف کی غیر موجودگی میں پیپلز پارٹی کے دونوں چیئرمین آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری اگر خود کو وزارت عظمیٰ کے مضبوط امیدوار سمجھتے ہیں، لیکن انہیں کوئی بھی امید نظر نہیں آتی، اس لئے کبھی مخلوط حکومت بنانے اور کبھی حزب اختلاف کی بنچوں پر بیٹھنے کی باتیں کرتے ہیں۔ میاں شہباز شریف کو خود شریف خاندان کی مخلصانہ حمایت حاصل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ چوہدری نثار علی خان اور ان کے ساتھیوں کا مسلم لیگ سے علیحدہ جیپ کے نشان پر الیکشن لڑنا ان کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے کہ وہ ملک کے وزیراعظم تو کیا، پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھی بن سکیں گے یا نہیں؟ باقی رہے عمران خان تو انہیں وزارت عظمیٰ کا خواب دیکھتے دیکھتے پانچ سال گزر گئے۔ اس عرصے میں ان کی مقبولیت کا گراف اوپر جانے کے بجائے بتدریج مائل بہ زوال ہے۔ انہیں خود بھی اندازہ ہوگیا ہے کہ نہ پرانے یہودی سسرالی خاندان کا سرمایہ اور نہ تیسری پیرنی صاحبہ سے شادی ان کا خواب پورا کرنے میں کام آسکے گی۔ چنانچہ اپنی فتح کا یقین دلاتے دلاتے اب حالات کا رخ دیکھ کر انہوں نے کہنا شروع کردیا ہے کہ اگر ہمارے امیدوار اکثریت سے قومی اسمبلی میں نہ پہنچ سکے تو ہم مسلم لیگ یا پیپلز پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے کے بجائے اپوزیشن میں بیٹھنا پسند کریں گے۔ اگر تینوں بڑی جماعتوں کے لیڈر حکومت سازی سے مایوس ہوکر حزب اختلاف کا کردار ادا کرنے کی باتیں کر رہے ہیں تو اس کے دو پہلو نہایت قابل غور ہیں۔ ایسی صورت میں کیا ایم کیو ایم، اے این پی یا متحدہ مجلس عمل تنہا یا مل کر حکومت تشکیل دے سکیں گی، جبکہ ان کے نظریات میں مشرق و مغرب کا بعد اور زمین و آسمان کا فرق ہے۔ دوم یہ کہ کیا حزب اختلاف میں مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف یکجا ہوں گی۔ اگر ایسا ہوا تو قائد حزب اختلاف کون ہوگا؟ یہ کالم گواہ ہیں کہ ہم ابتدا ہی سے مروجہ جمہوریت اور موجودہ انتخابی نظام کو جعلی اور فراڈ کہتے چلے آرہے ہیں۔ حالیہ انتخابات کے نتائج ہمارے مؤقف اور عوامی سوچ کو سچ ثابت کر دکھائیں گے۔ نتائج آنے میں تین دن اور ان نتائج کے قوم پر فوری اثرات ظاہر ہونے میں دو تین ہفتے لگیں گے۔ البتہ رب کائنات سے دست بستہ دعا ہے کہ وہ رحیم و کریم ہمارے اعمال کی سزا دینے اور ہمیں مزید انتشار و خلفشار دکھانے کے بجائے ہمارے حال پر رحم فرمائے کہ اب ہم مزید بدنامی و بربادی کے متحمل نہیں ہیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More