حضرت شیخ سید عبد القادر جیلانیؒ کی جائے پیدائش طبرستان ہے، جسے اب گیلان کہتے ہیں۔ جھیل کس یا بحیرہ اخضر کے مغربی کنارے پر ایران کا ایک صوبہ ہے، اس میں ایک خاص علاقہ، گیلانی یا جیلان کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے مقام نیق میں حسنؓ حسینیؓ سادات کرام کا وہ خاندان بستا تھا۔ جس کے ایک درخشاں روشن محل سے ایک عظیم بزرگ ہستی کا ظہور ہوا۔ جس سے دنیا میں توحید کی روشنی پھیلی۔
آپؒ کی پیدائش 470ھ بمطابق 1075ء میں ہوئی۔ والد گرامی کا اسم مبارک صالح موسیٰؒ اور والدہ ماجدہ کا اسم گرامی فاطمہؒ ہے اور ان کی کنیت ام الخیر ہے۔ آپ والد ماجدؒ کی طرف سے پانچویں پشت میں سیدنا حضرت امام حسنؓ بن حضرت علی المرتضیٰؓ سے ملتے ہیں اور والدہ کی طرف سے دسویں پشت میں حضرت امام حسینؓ بن حضرت علیؓ سے ملتے ہیں۔ آپؒ کا سلسلہ نسب حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت عثمان غنیؓ سے بھی ملتا ہے (یاد رہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا گھرانہ حضرات سادات کرام کا ننھیال بھی ہے، کتاب منہاج الواضع ص 52 مصنف سید تصدق بخاری)
والد محترمؒ نے آپؒ کا اسم گرامی عبد القادر رکھا۔ ابو محمد کنیت تھی اور محی الدین (دین کو زندہ کرنے والا)، سلطان الاولیائ، محبوب سبحانی، قطب ربانی القاب آپ کو عوام نے دیئے۔ آپ کی وفات 562ھ میں ہوئی۔ حضرت شیخ سید عبد القادر گیلانیؒ کی پیدائش کے وقت آپؒ کی والدہ ماجدہ کی عمر مبارک ساٹھ سال تھی۔ (بحوالہ غنیۃ الطالبین)
کرامت: اسلامی اصطلاح میں ایک لفظ معجزہ، ایک کرامت، ایک ارحاص ایک معاونت اور ایک استدراج ہے۔
معجزہ: کی جمع معجزات ہے۔ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ نے لکھا ہے کہ معجزہ کا لفظ اعجاز سے لیا گیا ہے، جس کے معنی عاجز کرنے کے ہیں۔ یعنی وہ بات جس کو حق تعالیٰ کسی نبی اور رسول کے ہاتھ سے ظاہر کر دے اور دوسرے اس طرح کی بات کرنے سے عاجز اور بے بس ہوں۔ مثلاً رب تعالیٰ کی عادت یوں جاری ہے کہ درخت، پتھر اور حیوانات، انسان سے کلام نہیں کرتے۔ اگر یہ چیزیں کسی نبی یا رسول سے باتیں کریں تو ان کو معجزہ کہا جائے گا۔
اگر یہی چیزیں کسی متبع شریعت ولی سے صادر ہوں تو ان کو کرامت کہا جائے گا۔ اگر ایسی خارق عادات بات نبی سے قبل از نبوت صادر ہو، تو اسے ارحاص کہتے ہیں۔ اگر ایسی خارق عادت بات کسی غیر ولی مومن صالح سے صادر ہو، تو اس کو معاونت کہتے ہیں اور اگر بد شخص سے ایسی خارق عادت بات صادر ہو تو اس کو استدراج کہتے ہیں۔ (تفسیر حقانی جلد اول۔ مظاہر حق جلد 5 ص 429)
حضرت شیخؒ کی کرامت:
سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ بادشاہوں کے تحفے تحائف قبول نہیں فرماتے تھے۔ ایک دفعہ خلیفہ مستنجد نے اشرفیوں کے دس توڑے بھر کر آپؒ کی خدمت اقدس میں پیش کئے۔ آپؒ نے حسب معمول انکار کر دیا۔ خلیفہ وقت نے اصرار (ضد) کیا تو حضرت شیخ نے ایک توڑا اپنے دائیں ہاتھ اور دوسرا بائیں ہاتھ میں لے کر دونوں کو آپس میں رگڑا تو اشرفیوں سے خون بہنے لگا۔ (یہ حضرت شیخ صاحبؒ کی کرامت تھی) آپؒ نے بادشاہ سے ارشاد فرمایا: تمہیں شرم نہیں آتی، بغداد کے لوگوں کا خون پیتے ہو اور اسے جمع کر کے میرے پاس لاتے ہو، یہ سارا ماجرا بادشاہ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، اس پر اتنا اثر ہوا کہ غشی و بے ہوشی کی نوبت آئی۔
Next Post