حصہ ششم
حضرت ابوعلی رباطیؒ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ رازیؒ کے ہمسفر تھے۔ سفر شروع کرتے وقت حضرت عبد اللہ رازیؒ نے فرمایا:
’’ہم میں سے ایک کو امیر اور دوسرے کو اس کا تابع رہنا چاہئے۔ اب بتاؤ تم میرے امیر ہو یا میں تمہارا امیر؟‘‘
حضرت ابو علی رباطیؒ نے عرض کیا: ’’آپ امیر ہیں۔‘‘
اس پر انہوں نے فرمایا: ’’تو سنو! جو کچھ میں کہوں، تمہیں ایسا ہی کرنا ہوگا۔‘‘
حضرت ابو علیؒ نے عرض کیا: ’’جو آپ حکم دیں گے، بجا لاؤں گا۔‘‘
آپ نے فرمایا: ’’تو پھر جاؤ، ایک تھیلا لے آؤ۔‘‘
وہ گئے اور تھیلا لے آئے۔ حضرت رازیؒ نے اس تھیلے میں ان کا تمام سامان، کپڑے اور سفر کا تمام سامان ڈال دیا۔ پھر اسے اپنی کمر پر رکھ لیا اور چل پڑے۔
یہ دیکھ کر حضرت ابو علی رباطیؒ نے عرض کیا:
’’حضرت بوجھ زیادہ ہے، کم از کم میرا سامان تو مجھے اٹھانے دیں، اس طرح تو آپ بہت تھک جائیں گے۔‘‘
یہ سن کر حضرت رازیؒ نے فرمایا: ’’میں امیر ہوں! تمہیں امیر پر حکم چلانے کا کوئی اختیار نہیں، تمہارا کام یہ ہے کہ حکم کی تعمیل کرتے رہو۔‘‘
ابوعلی رباطیؒ نے کئی بار سامان کا تھیلا لینے کی کوشش کی، لیکن انہوں نے ہر بار یہی جواب دیا۔
سفر کے دوران ایک رات بارش نے آگھیرا۔ ساری رات ایک کمبل ابو علی رباطیؒ پر تانے کھڑے رہے اور بارش کا ایک قطرہ تک ان پر نہ گرنے دیا، جب کہ خود بھیگتے رہے۔ جب بھی ابوعلیؒ کچھ کہنے کی کوشش کرتے تو آپ فوراً فرماتے:
’’میں امیر ہوں اور تمہیں امیر پر حکم چلانے کا کوئی اختیار نہیں۔‘‘
سارے سفر کے دوران حضرت ابوعلی رباطیؒ یہ خواہش کرتے رہے:
’’کاش! میں نے ان سے امیر بننے کے لیے نہ کہا ہوتا۔‘‘
ایک شخص نے حضرت امام ابو حنیفہؒ سے 50 ہزار قرض لیا، قرض لینے کے بعد وہ کنی کترانے لگا، یعنی اس نے آپ سے ملنا جلنا چھوڑ دیا، ایک روز اس نے دیکھا کہ امام صاحبؒ چلے آرہے ہیں، تو وہ ایک گلی میں گھس گیا، لیکن جلد ہی اسے امام صاحبؒ پھر سامنے سے آتے نظر آئے تو دوسری گلی میں گھس گیا۔
ایسا کئی بار ہوا، امام صاحبؒ سمجھ گئے کہ اس کی نیت میں فرق آگیا ہے اور یہ قرض ادا کرنا نہیں چاہتا، آخر ایک روز آپ نے اسے لپک کر پکڑلیا اور فرمایا:
’’ہمارا قصور کیا ہے، جو ہم سے کنی کتراتے ہو، کیا میں کسی اچھوت قوم سے ہوں، آخر وجہ کیا ہے۔‘‘
اب وہ کیا جواب دیتا، خاموش کھڑا رہا، دل میں جو چور تھا، آخر آپ نے فرمایا: ’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا پیسے واپس کرنے کو جی نہیں چاہتا یا آپ کے پاس نہیں ہیں۔‘‘
وہ شخص مال دار تھا، مفلس نہیں تھا، چنانچہ اس نے کہا:
’’ایسی بات نہیں کہ پیسے موجود نہیں ہیں، بس دینے کو جی نہیں چاہتا اور آپ سے کنی کترانے کی وجہ بھی یہی ہے۔‘‘
امام صاحب نے فرمایا: ’’بھلا مال بھی ایسی چیز ہے کہ س کی وجہ تعلقات خراب کیے جائیں… پچاس کا پچاس ہزار معاف کیا، مگر تعلقات پر پانی نہ پھیرو… آمدو رفت اسی طرح جاری رکھو جیسی پہلے تھی۔‘‘
(جاری ہے)