امام ابو یوسفؒ یتیم تھے۔ والد صاحب کا بچپن میں ہی انتقال ہوگیا تھا۔ جب ابویوسفؒ ذرا بڑے ہوئے تو والدہ نے انہیں روزی کمانے کے لیے بھیجا، یہ روزی کمانے کے لیے مختلف کام کرتے پھرتے تھے، والدہ نے مشورہ دیا تھا کہ کپڑے دھونے کا فن سیکھ لیں، تو گزر اوقات کا کچھ بندوبست ہو جائے گا۔
ایک مرتبہ امام ابو یوسفؒ، حضرت امام ابو حنیفہؒ کے درس میں جا بیٹھے، اس طرح انہیں علم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوگیا… یہ امام صاحبؒ کے درس میں بیٹھنے لگے… ادھر والدہ چاہتی تھیں کہ بیٹا کچھ کما کر لائے اور امام ابو یوسفؒ کا جی چاہتا تھا کہ وہ علم حاصل کریں… انہوں نے سارا حال امام صاحبؒ سے کہہ دیا… امام صاحبؒ نے شاگرد میں چھپی ہوئی صلاحیت بھانپ لی تھی، چنانچہ انہوں نے فرمایا:
’’آپ درس میں باقاعدہ آتے رہئے، ہم آپ کو کچھ ماہانہ وظیفہ دے دیا کریں گے۔‘‘
اس طرح امام ابو یوسفؒ سارا مہینہ درس میں شریک رہتے اور امام ابو حنیفہؒ اپنی جیب سے انہیں وظیفہ دے دیتے، وہ رقم امام ابو یوسفؒ اپنی والدہ کو دے دیتے، کافی مدت یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا۔
ایک دن امام ابو یوسفؒ کی والدہ کو پتا چلا کہ بیٹا محنت مزدوری کے بجائے علم حاصل کررہا ہے، تو بہت بگڑیں، بیٹے کو سمجھایا:
’’تمہارے والد فوت ہوگئے ہیں، گھر میں کوئی دوسرا مرد نہیں، جو کما سکے، اس لیے اگر تم کام کاج کرتے رہتے تو یہ ہمارے لیے بہتر رہتا، یا تم کوئی ہنر سیکھ لیتے۔‘‘
امام ابو یوسفؒ نے یہ بات اپنے استاد صاحب کو بتا دی۔ امام صاحبؒ نے سن کر فرمایا: ’’اپنی والدہ سے کہنا، کسی وقت آکر میری بات سن لیں۔‘‘
اس طرح امام ابو یوسفؒ اپنی والدہ کو امام صاحبؒ کی خدمت میں لے آئے… والدہ نے امام صاحبؒ کی خدمت میں اپنی وہی بات پیش کی… جو آپ پہلے ہی سن چکے تھے، آپ نے ان سے ارشاد فرمایا:
’’میں آپ کے بیٹے کو ایک فن سکھا رہا ہوں، اس فن کی بدولت یہ پستے کا بنا ہوا فالودہ کھایا کرے گا۔‘‘
والدہ نے اس وقت خیال کیا کہ شاید یہ امام صاحبؒ مذاق میں ایسی بات فرما رہے ہیں، اس لیے خاموش ہوگئیں، کیونکہ گھر کا خرچ تو وظیفے سے چل رہا تھا۔
ابو یوسفؒ نے جب علم سے فراغت حاصل کرلی تو وہ وقت کے ایک بڑے امام بن گئے، ان کی شہرت دور دور تک پھیل گئی، وقت کے خلیفہ نے حضرت امام ابو یوسفؒ کو چیف جسٹس کا عہدہ پیش کیا۔
چنانچہ امام ابو یوسفؒ وقت کے چیف جسٹس بن گئے، یہ پورے ملک میں مقبول ہوگئے، اب حکومت نے یہ بات اپنے ذمے لی کہ کام کے دوران ان کے کھانے کا بندوبست حکومت کی طرف سے ہوگا، ایک دن خلیفہ ان سے ملنے کے لیے آئے اور اپنے ساتھ پیالے میں فالودہ لائے، وہ فالودہ خلیفہ نے امام ابو یوسفؒ کو پیش کیا اور کہا:
’’حضرت! یہ قبول فرمائیں، یہ وہ نعمت ہے جو ہمیں بھی کبھی کبھی ملتی ہے، مگر آپ کو روز ملا کرے گی۔‘‘
آپؒ نے پوچھا: ’’یہ کیا ہے؟‘‘
خلیفہ نے کہا: ’’یہ پستے کا فالودہ ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی امام ابو یوسفؒ حد درجے حیران ہوئے، استاد محترم کے منہ سے نکلی ہوئی بات لفظ پوری ہوگئی تھی۔(جاری ہے)
Prev Post
Next Post