میرے بابا اور پاکستان

0

آج 25 جولائی کو آپ اپنے وطن اور اپنی قوم کے مستقبل کے بارے میں اپنا ووٹ دینے والے ہیں۔ میرے پیارو! اس سے پہلے میرا یہ مشورہ ضرور پڑھ لینا… میرا نام پاکستان ہے۔ میں آپ کا گھر ہوں۔ آپ کا وطن ہوں۔ آپ کی پناہ گاہ ہوں۔ میرا یہ نام میری پیدائش سے پہلے ہی رکھ دیا گیا تھا۔ کتنا پہلے؟ چودہ سال پہلے۔ میری پیدائش 1947ء میں ہوئی اور میرا نام 1933ء میں رکھ دیا گیا تھا۔ یہ نام میرے والد جناح پونجا نے نہیں رکھا تھا، بلکہ چوہدری رحمت علی جو مسلمانوں کے ایک لیڈر تھے، انہوں نے تجویز کیا تھا۔
میرے نام ’’پاکستان‘‘ کے لغوی معنی ہیں: پاک زمین۔ یا پاک ملک یا جگہ۔ یہ فارسی نام ہے۔ ظاہر ہے کہ پاک جگہ اس مقام کو کہیں گے جو نجاست سے پاک ہو۔ جہاں ناپاکی نہ ہو۔ مراد یہ ہے کہ یہ ایسا ملک ہے، جہاں کفر کی نجاست نہ ہو۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں کفار نہیں رہتے؟ بالکل رہتے ہیں۔ یہاں عیسائی بھی رہتے ہیں، سکھ بھی اور ہندو بھی۔ میں ان سب کا وطن ہوں۔ ان سب کی پناہ گاہوں، مگر مطلب یہ ہے کہ میری ذات نجاست سے پاک ہے۔ میرا مقام پیدائش اور ہے۔ یعنی پاکستان اور میری ذات اور ہے۔ جیسے ایک آپ ہیں اور ایک آپ کا گھر۔
میرا شجرۂ نسب:
آپ کو تعجب ہوگا کہ میرے دادا پڑدادا خوجہ فیملی سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن میرے بابا محمد علی جناح ان سے مختلف سوچ رکھتے تھے۔ وہ مسلمان تھے اور اپنے وطن سے بے حد محبت رکھتے تھے۔ بہت سے لوگ اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ جاتے تھے تو ان ہی کے رنگ میں رنگ جاتے تھے۔ میرے بابا بھی اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن گئے اور بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔ ان کی خداداد ذہانت و فراست نے بڑی گہری نظر سے یورپ کی زندگی کا مشاہدہ کیا اور شدت سے محسوس کیا کہ وہ ہندو پاک میں رہنے والے غیر مسلموں کو مسلمانوں کے خلاف بڑی عیاری سے بھڑکاتے رہتے ہیں اور خاص طور پر ہندوئوں کو طاقتور کر کے مسلمانوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھا رہے ہیں۔
وہ اس عزم کے ساتھ ہندوستان واپس آئے کہ وہ مسلمانوں کو ان کے ظلم سے نجات دلائیں گے۔ پہلے انہوں نے ہندوئوں کی جماعت آل انڈیا کانگریس میں شمولیت کر کے ہندوئوں کی سیاسی حکمت عملی کا مطالعہ کیا اور بہت قریب سے ان کی چالوں کا مشاہدہ کیا۔ آخر میں اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمانوں میں اپنے دین کی محبت ان کے خون کا حصہ ہے۔ وہ بے چارے اچھی قیادت سے محروم ہیں۔ انہیں اگر اس وقت قیادت مل گئی تو وہ ایک بڑی قوت بن کر ابھر سکتے ہیں۔
چنانچہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ مسلمانوں کی ایک الگ جماعت ہونی چاہئے۔ انہوں نے کانگریس سے علیحدگی اختیار کی اور آخرکار انہوں نے 1913ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے نام سے ایک الگ جماعت کا اعلان کر دیا۔ مسلمانوں میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا ہندوستان مسلم لیگ زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا۔
اب میرے بابا محمد علی جناح نہیں رہے تھے، بلکہ قائد اعظمؒ بن گئے تھے۔ میرے بابا کی بہادری اور اپنے رب پر ایمان کی قوت دیکھئے کہ خون کے پیاسے دشمنوں کے نرغے میں گھرے ہوئے ہونے کے باوجود انہوں نے حکومت برطانیہ کے سامنے دوٹوک اعلان کر دیا کہ’’مسلمان اور ہندو دو الگ قومیں ہیں۔ ان کا ایک ساتھ رہنا ناممکن ہے۔‘‘ یہ ایک سطری اعلان ایک ایسا
دھماکہ ثابت ہوا کہ پورا ہندوستان اس سے لرز اٹھا، یہ دو قومی نظریہ ہی آگے چل کر پاکستان کے قیام کی صورت میں ظاہر ہوا۔ میرے بابا نے اپنی عمر کے 35 سال آپ کو ایک ایسا وطن دینے کے لیے قربان کر دیئے، جہاں آپ آزادانہ مسلمان بن کر زندگی گزار سکیں۔ جہاں آپ پر اذانوں اور مسجدوں کے قیام پر کوئی پہرہ نہ ہو۔ جہاں آپ گائے کی قربانی آزادانہ کر سکتے ہوں۔
میرے بابا کی 35 سال پہلے کی تصویر دیکھئے، وہ ایک خوب صورت اور خوش لباس نوجوان تھے۔ انہوں نے آپ کے لیے اپنی صحت، اپنے بیوی بچے اور اپنا مال و دولت سب نثار کر دیا اور وہ اس وطن اور اس قوم کی حفاظت کی ذمہ داری آپ کو سونپ کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ ان کی آخری زمانے کی تصویر دیکھئے۔ وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ نظر آتے ہیں اور مسلمانوں کو ایک وطن دے کر رخصت ہوگئے۔
میں اپنے بابا کی طرف سے اپنے مسلمانوں سے چند سوال کرتا ہوں کہ تم نے اپنے اس محسن کو، اپنے قائداعظم کو ان کی قربانیوں کے بدلے میں کیا دیا؟ (نام لوں گا تو غیبت ہو جائے گی) میں نام لیے بغیر تم کو بتاتا ہوں کہ تم نے اس وطن کو کیا دیا۔
(1) تم نے مہاجر جیسے پاک نام کا ماسک اوڑھے ہوئے ہڈیوں میں ڈرل کرنے والوں، مخالفین کو زندہ جلانے والے قافلوں کی پرورش کر کے اپنے بابا کی روح کو اذیت دی اور انہیں اسمبلیوں میں لاکر بٹھا دیا۔
(2) اول تو برٹش حکومت اور کانگریس کے گٹھ جوڑ نے پاکستان کو اس طرح تقسیم کیا کہ اس کا ایک حصہ مشرق میں اور ایک حصہ مغرب میں تھا۔ پھر تم نے مشرقی اور مغربی پاکستان کی لیڈر شپ شرابیوں اور مفاد پرستوں کو سونپ دی۔ جنہوں نے اپنے مفاد کے لیے پاکستان کے دو ٹکڑے کر دیئے۔ اِدھر ہم اُدھر تم کے نعرے نے اِدھر کو چھوڑا نہ اُدھر کو۔
(3) تاریخ نے شاید پہلی مرتبہ یہ دیکھا کہ نوے ہزار پاکستان کے محافظ فوجی جوان ہندوستان میں قید کر دیئے گئے۔ تم نے کبھی سوچا کہ تم نے اپنے محسن کے ساتھ جو معاملہ کیا، اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ جو اپنے محسن سے غداری کرتا ہے، وہ اپنے دشمنوں کی غلامی کیا کرتا ہے۔ یہی ہوا۔ ان دشمنوں نے ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا اور آج بھی پاکستان کا مشرقی حصہ بنگلہ دیش بن کر ہندوستان کی بدترین غلامی کر رہا ہے۔
احسان فراموشی کی سزا
حق تعالیٰ نے اس امت کو آسمانی عذابوں سے تو بچا لیا ہے، مگر زمین اور زمین والوں کو محسن کشی کی سزا کے طور پر پوری قوم پر مفاد پرستوں، شرابیوں، ختم نبوت کے منکروں اور اپنی تجارت کے فروغ کے لیے ہندوستان سے دوستیاں کرنے والوں کی صورت میں مسلط کر دیا ہے۔ ان عذابوں کا بھی تھوڑا سا جائزہ لے لیجئے۔
(الف) حق تعالیٰ نے ایک طبلہ بجانے والے ایسے فوجی کمانڈو کو آپ کا کمانڈر بنا دیا، جس نے حدود اللہ میں دخل اندازی کی۔ ختم نبوت کا مضحکہ اڑایا۔ قوم کی معصوم بیٹیوں کو چند حقیر سکوں کے عوض بیچ ڈالا، عافیہ صدیقی ابھی تک امریکہ کی قید میں سختیوں کا مقابلہ کر رہی ہے اور اس کی بددعائیں اس کمانڈو کی بدبختی میں اضافہ کر رہی ہیں۔
(ب) اسی مفرور اور متکبر کمانڈو نے پاکستان کی غیرت کو امریکہ کی گود میں لاڈالا۔ اس کے نتیجے میں آج پاکستان امریکہ کا زرخرید غلام بنا ہوا ہے۔ اے میرے بابا کے باشندو! اس مجسم عذاب سے تم اب بھی کوئی سبق نہیں لے رہے ہو۔ کچھ لوگ اسی عذاب کو دوبارہ پاکستان لانے کی کوشش میں ہیں۔ ڈرو اللہ کے اس عذاب سے۔
(ج) اسی کی بزدلانہ اور احمقانہ پالیسیوں کی وجہ سے امریکہ کے سفارت کار اور بلیک واٹر کے ایجنٹ، دن دہاڑے پاکستانی شہریوں کو قتل کرتے ہیں اور بغیر کسی سزا کے ملک سے فرار ہو جاتے ہیں۔
(د) انگریزوں سے اسلام سیکھنے والے، سیکولر ازم کے علم بردار، مزاروں پر سجدہ کرنے والے جیسے لیڈر وزارت عظمیٰ جیسے اہم منصب کے امیدواروں میں شامل ہیں اور تم اندھے بن کر اس کے پیچھے چل پڑے ہو۔
(ہ) اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس وقت امریکہ ہمارے اندرونی معاملات میں براہ راست دخل انداز ہو رہا ہے۔
(و) ہمارے وزرائے اعظم حُب مال اور جاہ و منصب کی ہوس میں پاکستانیوں کی دولت کو لوٹ کر دشمنوں ہی کے ممالک کے بینکوں میں جمع کرا کے خود کو پاکستان کے ہمدرد رہنما منوا رہے ہیں۔ دو بار اور تیسری بار عوام کے مال و جان کو بیچنے کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔
اللہ کی طرف سے ایک اور موقع
بھلا ہو ہمارے مخلص علماء کا کہ ان تہہ در تہہ اندھیروں میں انہوں نے ہدایت کے چراغ کو بجھنے نہیں دیا۔ پاکستان زندہ ہے اور ان شاء اللہ زندہ رہے گا۔ آج بھی پاکستان واحد ملک ہے، جس کی پیشانی پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہے۔
میرے بابا کے پاکستانی باشندو! خدا نے تمہیں پھر ایک موقع دیا ہے کہ تم اس زرین موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنے رب کے حضور اور اپنے محسن بابا کے سامنے سرخرو ہو سکو۔ آج تمہارے امتحان کا دن ہے۔ یہ فیصلہ تمہارا ہے کہ تم اپنا ووٹ ان ہی ڈاکوئوں، چوروں اور قاتلوں کو دو، جنہوں نے تم کو تمہارے دشمنوں کے ہاتھ بار بار بیچا ہے یا ایسے مخلص، دیندار اور پاکستان سے محبت کرنے والوں کو دے کر اپنے ملک، اپنی قوم اور اپنے دوستوں کو اسمبلیوں میں لاکر بٹھائو، جو تمہاری موجودہ تباہ حالی کو خوش حالی میں بدلنے کی کوشش کریں۔
اچھے لوگوں کو ووٹ دینا ایک دینی فریضہ ہے۔ تمہارے دلوں میں اور پاکستان کی پیشانی پر لکھے ہوئے کلمہ توحید کے تقدس کی حفاظت اسی طرح فرض ہے، جس طرح نماز، روزہ فرض ہے۔ اپنے ضمیر کی آواز کو سن کر اپنا ووٹ استعمال کرو۔
اگر تم نے اس مرتبہ بھی اپنی پچھلی غلطیوں کو دہرا دیا تو پھر حکومتوں اور اداروں سے یہ شکایت نہ کرنا کہ ہمارے گھر بجلی سے محروم ہیں، ہمارے کاروبار پر ٹیکسوں کی بھرمار ہے۔ ہمارے چولہوں میں گیس نہیں ہے۔ ہمارے نلوں میں پانی کی جگہ ہوا بھری ہوئی ہے۔ ہمارے معصوم بیٹے، بیٹیاں، بیگار میں پکڑے جا رہے ہیں۔ اے اللہ! اس الیکشن کے نتیجے میں صالح قیادت پاکستان کو عطا فرما دے۔ آمین۔ وما توفیقی الاباللہ۔٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More