معارف و مسائل
وَالبَحْرِ المَسْجُوْرِ… بحر سے مراد سمندر اور مسجور سجر سے مشتق ہے، جو کئی معنی کے لئے استعمال ہوتا ہے، ایک معنی آگ بھڑکانے کے بھی ہیں، بعض حضرات مفسرین نے اس جگہ یہی معنی لئے کہ قسم ہے سمندر کی جو آگ بنا دیا جائے گا، اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ قیامت کے روز سارا سمندر آگ بن جائے گا، جیسا کہ دوسری آیت میں ہے۔ یعنی چاروں طرف کے سمندر آگ بن کر میدان حشر میں جمع ہونے والے انسانوں کے محیط ہو جائیں گے، یہی معنی حضرت سعید بن مسیبؒ نے حضرت علیؓ سے نقل کئے ہیں، حضرت ابن عباسؓ اور سعید بن مسیبؒ، مجاہدؒ، ابن عمیرؒ نے بھی یہی تفسیر کی ہے۔ (ابن کثیر)
حضرت علیؓ سے کسی یہودی نے پوچھا کہ جہنم کہاں ہے؟ تو آپؓ نے فرمایا سمندر ہے، یہودی نے بھی جو کتب سابقہ کا عالم تھا، اس کی تصدیق کی۔ (قرطبی) اور حضرت قتادہؒ وغیرہ نے مسجور کے معنی مملو کے کئے ہیں، یعنی پانی سے بھرا ہوا، ابن جریرؒ نے اسی معنی کو اختیار کیا۔ (ابن کثیر) یہی معنی خلاصہ تفسیر میں اوپر بیان ہوئے ہیں۔
اِنَّ عَذَابَ رَبّکَ… ’’’بیشک آپ کے رب کا عذاب واقع ہو کر رہے گا، اس کو کوئی دفع کرنے والا نہیں۔‘‘ یہ جواب قسم ہے اور طور، صحائف، اعمال، بیت المعمور، آسمان، سمندر کی جس مضمون کے لئے قسم کھائی ہے، اس کا یہ بیان ہے کہ کفار کے اوپر خدا کا عذاب ضرور واقع ہو گا۔
واقعہ فاروق اعظمؓ
حضرت فاروق اعظم نے ایک روز سورئہ طور پڑھی، جب اس آیت پر پہنچے تو ایک آہ سرد بھری ، جس کے بعد بیس روز تک بیمار رہے ، لوگ عیادت کو آتے ، مگر یہ کسی کو معلوم نہ ہو سکا کہ بیماری کیا ہے۔ (ابن کثیر)
حضرت جبیر بن مطعمؓ فرماتے ہیں کہ میں مسلمان ہونے سے پہلے ایک مرتبہ مدینہ طیبہ اس لئے آیا کہ رسول اقدسؐ سے بدر کے قیدیوں کے متعلق گفتگو کروں، میں پہنچا تو آپؐ مغرب کی نماز میں سورئہ طور پڑھ رہے تھے اور آواز مسجد سے باہر تک پہنچ رہی تھی، جب یہ آیت پڑھی تو اچانک میری یہ حالت ہوئی کہ گویا میرا دل خوف سے پھٹ جائے گا، میں نے فوراً اسلام قبول کیا، مجھے اس وقت یہ محسوس ہو رہا تھا کہ میں اس جگہ سے ہٹ نہیں سکوں گا کہ مجھ پر عذاب آ جائے گا۔ (قرطبی) (جاری ہے)
Prev Post
Next Post