میں نے گزشتہ مضمون میں انگریزوں کے متعلق تحریر کیا ہے کہ وہ کس طرح ایک دور دراز کے جزیرہ نما دیس سے طویل سفر کرکے سمندری جہازوں کے ذریعے ہماری سر زمین ’’برصغیر‘‘ تک پہنچے۔ وہ ہمارے حکمرانوں کی منت سماجت کرتے رہے کہ انہیں وہاں کاروبار کرنے کی اجازت دی جائے… پھر کس طرح انہوں نے پورے ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔ آج ہم ان کی زبان بولتے ہیں… ان کے جہاز رانی کے طریقے پڑھتے ہیں… انہیں بہت بڑا Seafarer ناخذا، نیوی گیٹر تسلیم کرتے ہیں… وغیرہ وغیرہ۔
ہمیں بچپن ہی سے یہ سبق پڑھایا جاتا ہے… ظاہر ہے یہ انگریزی میں لکھی گئی ہیں، جنہیں ہم پڑھتے ہیں۔ ان کے مصنف بھی وہ خود یعنی انگریز ہیں۔ میں نے چٹا گانگ میں جہاز رانی اور جہاز سازی کی بنیادی تعلیم حاصل کی، وہاں بھی انگریز موجود تھے۔ بعد میں سویڈن کی ورلڈ میری ٹائم یونیورسٹی سے اس موضوع پر مزید تعلیم حاصل کی… وہاں بھی ٹیچرز زیادہ تر انگریز تھے۔ ان میں اگر کوئی سویڈش، نارویجن یا فرنچ بھی تھا تو وہ بھی لیکچر انگریزی ہی میں دیتا تھا۔ وہ کتابیں ہمیں پڑھاتے تھے، وہ انگریزوں کی لکھی ہوئی تھیں۔ پھر جہاز چلانے کے دوران ہمارا زیادہ تر ان بندرگاہوں میں جانا ہوا، جہاں انگریزی زبان عام تھی… کسی فرنچ، اطالوی، ہسپانوی اور پرتگالی زبانیں بولنے والے افریقی یا ایشیائی ملک میں جانا ہوتا تو حیرت ہوتی تھی کہ یہ یورپی ان ملکوں میں کب آئے؟ انہوں نے ان دور دراز کے ملکوں پر کس طرح آکر قبضہ کر لیا تھا؟
پاکستان اور ہندوستان کی طرح ملائیشیا میں بھی انگریزی بولی جاتی ہے۔ کیوں کہ وہاں بھی انگریزوں کا راج رہا ہے۔ ہمیں 1947ء میں اور ملائیشیا کو سولہ برس بعد 1963ء میں آزادی ملی۔ ملائیشیا کے تاریخی شہر ملاکا میں دس برس رہنے کے دوران میرے پاس کئی ہم وطن ملنے آتے رہے ہیں۔ میں انہیں شہر دکھانے لے جاتا تو وہ وکٹوریا فوارہ (Fountain)، وکٹوریا کلاک، کوئنس روڈ اور انگریزوں کے نام سے منسوب چیزوں کو دیکھ کر گزرا ہوا زمانہ یاد کرتے تھے۔ انگریز جہاں بھی رہے، انہوں نے وہاں اپنی یادگاریں ضرور چھوڑی ہیں۔ ہمارے ہاں بھی کراچی میں بولٹن مارکیٹ، میکلوڈ روڈ، امپریس مارکیٹ، فریئر ہال اور اس میں ملکہ وکٹوریا کا مجسمہ، برنس روڈ، رانی باغ، مختلف اسکول اور گرجا گھر کثرت سے موجود ہیں۔ ممبئی بھی انگریزوں کی یادگاروں سے بھرا ہوا ہے۔ وہاں کے تو ریلوے اسٹیشن اور پلوں کے نام بھی انگریزوں کی یاد دلاتے ہیں۔ جس طرح ہمارے ہاں جیکب آباد، جیمس آباد (کوٹ غلام محمد)، لینڈس ڈاؤن پل وغیرہ۔
میں دیکھتا تھا کہ ملائیشیا میں آنے والے میرے مہمانوں کو اس وقت بہت حیرت ہوتی تھی، جب وہ ملاکا شہر میں پرتگالوں کا قلعہ اور ترگیز کوارٹرز (کالونی) دیکھتے تھے۔ جس میں لسبن اور واسکوڈی گاما جیسے ناموں کے ہوٹلز ہیں۔ وہاں رہنے والے مقامی ملئی لوگ آپس میں پرتگالی زبان بولتے ہیں۔
’’یہ پرتگالی بھی یہاں پہنچ گئے تھے؟‘‘ وہ اکثر تعجب سے دریافت کرتے تھے۔ ان کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ دور دراز کے علاقوں تک پہنچنے کا حوصلہ اور طریقہ صرف انگریزوں کے پاس تھا۔ جنہوں نے آکر انڈیا، نیپال، سیلون (سری لنکا) جزیرہ مالدیپ، ملائیشیا، سنگاپور اور ہانگ کانگ پر قبضہ کرلیا تھا… دراصل ان لوگوں کا بھی کوئی قصور نہیں ہے۔ انہوں نے بھی صرف انگریزون کی لکھی ہوئی کتابیں پڑھی ہیں۔ ان کی سمندری سفروں پر مشتمل فلمیں دیکھی ہیں۔ جن میں انگریزوں نے خود کو بہت سراہا ہے۔ اپنے آپ کو بہادر، نڈر اور مہم جو ثابت کرتے ہوئے دوسروں کے حقیقی کارناموں پر سایہ ڈال دیا ہے۔
بہرحال مجھے اپنے مہمانوں کو سمجھانا پڑتا تھا کہ انگریز بہادر ہوشیار ضرور تھے، لیکن اس سرزمین پر ان سے پہلے ہالینڈ سے ڈچ پہنچے تھے… ڈچوں سے بھی پہلے یہاں پرتگالی موجود تھے… یعنی پرتگالی سب سے پہلے یہاں وارد ہوئے۔ حد تو یہ ہے کہ میرے جہاز کے جونیئر افسر بھی یورپین کے ذکر پر انگریزوں کی تعریف میں بہت آگے نکل جاتے تھے… انگریز ماہر جہاز راں تھے۔ سات سمندروں پر ان کی تجارت چلتی تھی… ان کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔
دراصل میں بھی شروع میں ایسے ہی خیالات رکھتا تھا۔ لیکن اب میں اپنے جونیئر جہازی افسران اور اسٹوڈنٹس کو سمجھاتا ہوں کہ انگریز جہاز راں اور نیوی گیٹر ضرور تھے۔ لیکن ان سے کہیں زیادہ ماہر ناخدا اور ملاح پرتگالی تھے۔ انگریز اچھے ڈپلومیٹ، سفارت کار، ایڈمنسٹریٹر ضرور تھے۔ وہ جس ملک پر قبضہ کرلیتے تھے تو وہاں جی بھر کر لوٹ مار کرتے تھے، لیکن اس کے ساتھ وہاں کا نظام بہتر بناتے تھے۔ مقامی لوگوں کے لئے سہولتیں پیدا کرتے تھے۔ سڑکیں تعمیر کرتے، پل اور کارخانے لگاتے تھے۔ اسپتال، اسکول، پارک، ریلوے اسٹیشن وغیرہ۔ یعنی عوامی ضروریات کی فراہمی پر بھی توجہ دیتے تھے۔ انگریزوں نے ہر ملک کو پوسٹ اور ٹیلی گراف جیسے ادارے دیئے۔ جوڈیشری اور انتظامی ادارے قائم کئے… لیکن یہ کہنا ہرگز درست نہیں ہوگا کہ انگریز سب سے اچھے جہاز راں بھی تھے… یا بہترین نیوی گیٹر یعنی سمندر میں راستہ تلاش کرنے والے تھے۔
اگر انگریز اچھے جہاز راں ہوتے تو سب سے پہلے وہی کیپ آف گڈ ہوپ والا سمندری حصہ عبور کر کے افریقہ کے مشرقی کنارے کے ملکوں اور انڈیا میں پہنچتے۔ میرین اکیڈمی کے میرے ایک اسٹوڈنٹ نے مجھ سے کہا تھا: ’’سر! انگریز آج سے چار سو سال پہلے مغل بادشاہ جہانگیر کے دور یعنی 1608ء میں انڈیا پہنچ گئے تھے۔ وہ سب سے پہلے اس سرزمین پر پہنچے، اس لئے وہ پورے ہندوستان پر قابض ہوگئے۔‘‘
بات دراصل یہ ہے کہ انڈیا، ملائیشیا سری لنکا اور دیگر ملکوں پر انگریزوں کا راج ضرور قائم ہوا، لیکن وہ پہلے یورپین نہیں تھے، جو اٹلانٹک سمندر عبور کر کے بحر ہند اور بحیرئہ عرب میں پہنچے۔ یہ تو پرتگالی تھے، جو سب سے پہلے، بلکہ بہت پہلے یہاں پہنچے۔ انگریز سیاحوں: ہاکنس اور سرولیم رو کے جہاز جب سورت بندرگاہ میں پہنچے تو وہاں یہی پرتگالی پہلے سے موجود تھے۔ انہوں نے انگریزوں کی وہ حالت کی کہ ان کے لئے جان بچانا مشکل ہوگیا تھا۔ آخرکار منت سماجت کے بعد بڑی مشکل سے ہاکنس کو جہانگیر بادشاہ سے ملنے کے لئے مغل کورٹ آگرہ جانے کی اجازت ملی۔ کورٹ میں بھی ہاکنس نے دیکھا کہ وہاں پرتگالیوں کا اثر و رسوخ ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ترکی زبان جاننے کی وجہ سے جہانگیر نے اس پر کچھ توجہ دی اور تنہائی میں ملنے پر بھی آمادہ ہوا… پھر چرب زبان ہاکنس نے عورتوں کے قصے اور فحش لطیفے سنا کر بادشاہ کو اپنا گرویدہ کرلیا۔ اس سے قبل جب ہاکنس کورٹ میں پہنچا تھا تو کورٹ میں موجود پرتگالی مشیر نے فارسی میں اس کا تعارف کراتے ہوئے جہانگیر سے کہا تھا۔
’’یہ مسافر ہمارے پڑوسی ملک سے، ہمارے دریافت کئے ہوئے سمندری راستوں کے ذریعے یہاں پہنچا ہے۔‘‘
ہمارے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ انگریز انڈیا میں بہت پہلے آگئے تھے۔ جب ہندوستان پر مغل بادشاہ جہانگیر کی حکومت تھی… جہانگیر کی حکومت کا آغاز اس کے والد اکبر کی وفات کے بعد 1605ء میں ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تین سال بعد 1608ء میں ہاکنس لندن سے سورت بندرگاہ پر پہنچا۔ پھر وہاں سے آگرہ مغل کورٹ میں حاضر ہوا، جہاں اس نے جہانگیر سے ملاقات کی۔ لیکن پرتگالی انڈیا میں کب پہنچے؟ جہانگیر سے پچاس برس قبل اکبر بادشاہ کا راج تھا… اس سے پہلے ہمایوں کا دور حکومت رہا، اس قبل بابر حسن نے 1526ء میں پانی پت کے میدان میں ابراہیم لودھی کو شکست دے کر اپنے مغل گھرانے کی حکومت کی بنیاد رکھی۔ جن لوگوں کو معلوم نہیں، انہیں یقیناً حیرت ہوگی کہ 1526ء میں جب ظہیر الدین باہر نے مغل سلطنت کی بنیاد رکھی تو ہندوستان میں پہلے سے ہی پرتگالی موجود تھے!
واسکوڈی گاما پہلا پرتگالی تھا، جس کا جہاز مئی 1498ء میں ہندوستان کی بندرگاہ کالیکٹ میں لنگر انداز ہوا تھا۔ اس وقت بابر کی عمر پندرہ برس تھی اور وہ وسط ایشیا کے شہر فرغانہ (اب ازبکستان کا شہر) کی گلیوں میں کھیل کود رہا تھا۔ اس کے خواب وخیال میں بھی نہ ہوگا کہ اٹھائیس سال بعد 1526ء میں وہ ہندوستان کے تاج وتخت کا مالک بن جائے گا۔
1510ء میں پرتگالیوں نے بیجاپور کے سلطان یوسف عادل شاہ کے سپاہیوں کو شکست دے کر گوا پر قبضہ کرلیا تھا۔ ہاں، یہ ضرور ہوا کہ وہ وہیں تک محدود رہے… انہوں نے پورے ہندوستان پر قبضہ کرنے کا خواب نہیں دیکھا۔ اس کے علاوہ اردگرد کے جزیروں اور شہروں پر بھی ان کا اثرو رسوخ تھا۔ لیکن انہوں نے انگریزوں کی طرح جوڑ توڑ نہیں کی۔ نہ ہی وہ بمبئی کے جزیروں کو ڈیولپ کرسکتے تھے۔ اس کے ڈیڑھ سو سال بعد انگریز زور پکڑگئے اور پورے ہندوستان پر قابض ہوگئے۔ اب وہ آسانی سے پرتگالیوں سے گوا چھین سکتے تھے، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اپنے ’’پیٹی بھائیوں‘‘ یعنی اپنے پورپین گوروںکو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ ان سے دشمنی کے بجائے دوستانہ تعلقات استوار رکھے۔ اس کے نتیجے میں انگلینڈ کے شہزادہ چارلس کی دوستی پرتگال کی شہزادی کیتھرین سے ہوئی اور 1662ء میں ان کی شادی ہوگئی۔ پرتگالیوں نے بمبئی کے جزیرے شہزادی کو جہیزمیں دے دیئے تھے۔ اس وقت وہ جزیرے دلدلی اور ویران تھے۔ بعد میں انگریزوں نے ان پر توجہ دی۔
یہ ہمارے جھرک شہر کے صوفی شاعر شاہ عنایت شہید کے دنوں کی بات ہے۔ وہ 1655 میں پیدا ہوئے اور انہیں1718ء میں ٹھٹھہ میں شہید کردیا گیا۔ شاہ عنایت شہید کو سندھ کا پہلا سوشل ریفارمر بھی کہا جاتا ہے۔ ان ایام میںدہلی کے تخت پر مغل بادشاہ فرخ سیار برا جمان تھا۔ وہ سخت بیمار ہوگیا اور اس کا علاج انگریز ڈاکٹر ولیم ہملٹن نے کیا تھا۔ صحت یاب ہونے کے بعد فرخ سیار نے اپنے علاج معالجے کے عوض انگریزوں کو تجارت جاری رکھنے اور اسے مزید توسیع دینے کے لئے بڑی مراعات دیں۔ شاہ عنایت پر یہ الزام لگایا گیا کہ انہوں نے مقامی کسانوں پر مشتمل ایک مختصر فوج بنائی ہے اور مغل بادشاہ فرخ سیار، مقامی جاگیر داروں اور ملاحوں کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا ہے۔ ان کا نعرہ تھا کہ ’’زمین پر جو محنت کرے گا، بوائی سیرابی اور کٹائی کی مشقت اٹھائے گا، اس کا مالک وہی ہے۔‘‘ یعنی جوکسان کھیتی باڑی کرتا ہے۔ اس سے پیدا ہونے والی فصل کا مالک اسی کو ہونا چاہئے۔
مقامی وڈیروں نے ان کی شکایت مغل بادشاہ فرخ سیار تک پہنچادی۔ غلط معلومات کی بنیاد پر مغل بادشاہ نے شمالی سندھ کے حاکم میاں یار محمد کلہوڑو کو فرمان جاری کیا کہ اس صوفی عنایت اور ان کے ساتھیوں کو فی الفور ختم کیا جائے۔ اس دوران کلہوڑوں کے کمانڈر نے خون خرابہ سے بچنے کے لئے شاہ عنایت کو مشاورت کے لئے بلوایا۔ لیکن جب وہ ٹھٹھہ شہر میں دشمنوں کے کیمپ میں پہنچے تو گرفتار کرلئے گئے اور پھر انہیں شہید کردیا گیا۔
یہاں میں نے صوفی شاہ عنایت کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ وہ زندگی کا ایک طویل عرصہ صوفی مرشد کی تلاش میں ہند سندھ میں بھٹکتے رہے۔ آخرکار بیجا پور میں ان کی ملاقات شاہ عبدالملک ابن شاہ عبید اللہ جیلانی قادری سے ہوئی۔ (ان کی 1699ء میں وفات ہوئی)
انڈیا کا شہر بیجاپور جو اب ’’وجیہ پور‘‘ کہلاتا ہے، کرناٹک ریاست میں ہے۔ یہ شہر تاریخی مقابر کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے اور یہ مقابر عادل شاہی گھرانے کے دور کے ہیں۔ بیجاپور کا تفصیلی ذکر تو آئندہ انڈیا کے سفر نامے میں ہوگا۔ یہاں صرف اتنا تحریر کروں گا کہ بیجاپور میں تقریباً تیس صوفی درویشوں کے مقبرے ہیں۔ 300 خانقا ہیں اور اسلامی مدرسے ہیں۔ بیجا پور ممبئی سے 550 کلو میٹر حیدر آباد دکن سے مغرب میں 384 کلومیٹر دور ہے۔ بیجاپور پر عادل شاہی بادشاہوں نے 1490ء سے 1686ء تک حکومت کی۔ اس کی بنیاد یوسف عادل شاہ نے رکھی تھی۔ سلطنت بیجاپور میں گوا بھی شامل تھا، جس کے متعلق میں گزشتہ سطور میں بیان کر چکا ہوں کہ 1510ء میں پرتگالیوں نے یوسف عادل شاہ کے سپاہیوں کو شکست دے کر خود قابض ہوگئے تھے۔
پرتگالی اچھے منتظم اور قبضے میں آنے والے علاقوں کو بہتر حالت میں رکھنے کے ماہر ہرگز نہیں تھے۔ کیوں کہ سری لنکا اور ملائیشیا جیسے ملکوں میں سب سے پہلے یہی پہنچے تھے اور انہوں قبضہ بھی کرلیا، لیکن بعد میں وہاں بھی ڈچوں اور انگریزوں نے ان سے وہ علاقے چھین لیئے تھے۔ بس لے دے کر گوا پر وہ کسی نہ کسی طرح قابض رہے۔ اس حد تک کہ 1947ء میں انگریزوں نے سیلون سمیت پورے برصغیر کو آزاد کردیا تھا، لیکن اس وقت بھی پرتگالیوں نے ’’گوا‘ کی جان نہیں چھوڑی۔ گوا بدستور پرتگال کی ریاست رہی۔
انڈین حکومت نے پرتگالیوں کی بڑی منت سماجت کی، لیکن وہ گوا سے دستبردار ہونے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ آخرکار 1961ء میں انڈیا کی فوج گوا میں داخل ہوگئی اور اسے انڈیا میں شامل کرلیا گیا۔ اس طرح پرتگالیوں نے گوا پر 1510ء سے 1961ء تک ساڑھے چار سو سال تک راج کیا۔ اب اسے انڈیا کا حصہ بنے بھی نصف صدی گزر چکی ہے، لیکن گوا ریاست کے شہر پونڈا، پنجم (دارالحکومت) اور سب سے بڑا شہر واسکوڈی گاما، انڈیا اور انگلینڈ کے نہیں، بلکہ پرتگال کے شہر معلوم ہوتے ہیں۔
یہاں کا رہن سہن، رسم و رواج، تہذیب و ثقافت خالص پرتگالی ہے۔ اس قسم کے پرتگالی شہر افریقی ملکوں موزمبق، نمبیا اور لیانڈا میں بھی نہیں ہیں۔ یہ ملک بھی پرتگالیوں کے قبضے میں رہے ہیں۔ ہاں، پرتگالیوں کی ایک ایشیائی کالونی جو گوا جیسی معلوم ہوتی ہے، وہ ہے ’’مکاؤ۔‘‘
مکاؤ جزیرہ ہانگ کانگ کے قریب واقع ہے اور اسی کی طرح چین کی ملکیت ہے۔ پرتگالیوں نے مکاؤ جزیرہ 1999ء میں چین کو واپس کردیا تھا۔
پرتگالیوں کے متعلق اتنا کچھ لکھنے کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ یہ لوگ انگریزوں کی آمد سے بہت پہلے برصٖغیر میں آئے تھے۔ کیوں کہ پرتگالی تمام یورپین سے زیادہ ماہر جہاز راں تھے۔ وہ سمندری لہروں کا مقابلہ کرتے، سورج، چاند، ستاروں اور ٹوٹے پھوٹے ’’قطب نما‘‘ کے ذریعے سمندر میں راستوں کا حساب لگاتے ہوئے سب سے پہلے انڈیا پہنچے تھے۔ ان کے مظالم، ٹھگیاں اور لوٹ مار اپنی جگہ، لیکن ان کی سمندری قابلیت کا اعتراف کرنا ضروری ہے۔ اس کا کریڈٹ انگریز قوم کو نہیں دیا جاسکتا۔
آخر میں یہاں سندھ کی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے تحریر کرتا چلوں کہ آپ آج ٹھٹھہ، سجاول، کیٹی بندر، جنگشاہی جیسے شہروں میں رہنے والے لوگوں سے دریافت کریں۔
’’آپ نے کبھی یہاں پرتگالیوں کو دیکھا؟‘‘
کئی تعلیم یافتہ لوگ بھی اس سوال کا جواب نفی میں دیں گے۔ لیکن آج سے ساڑھے چار سو برس پیشتر ان علاقوں کا بچہ بچہ پرتگالیوں سے واقف تھا۔ اس وقت کوئی انگریزوں کو نہیں جانتا تھا۔ اس کے بہت بعد میں، میروں کے دور میں اکا دکا انگریز سندھ میں نظر آنے لگے تھے۔ لطف کی بات یہ کہ مقامی لوگ پہلے تو انہیں بھی پرتگالی سمجھتے رہے۔ جس طرح اس زمانے میںملائیشیا کی بندرگاہ میں چوبی کشتیوں جو عرب اور برصغیر کے لوگ پہنچےتھے … اور وہ چونکہ برصغیر کے کنارے کنارے کلکتہ، چٹا گانگ اور چالنا جیسی بنگال کی بندر گاہوں سے ہوتے ہوئے پھر ملایا (آج کے مغربی ملائیشیا) کی بندرگاہ ’’ملاکا‘‘ پہنچے تھے۔ اس لیے ملاکا کے لوگ مغربی سمت سے آنے والے اجنبیوں کو بنگالی کہتے تھے۔ مشرقی سمت سے آنے والوں کو چینی، فلپائنی اور جاپانی کہتے تھے۔ ملاکا میں بھی سب سے پہلے پہنچنے والے یورپین، پرتگالی ہی تھے۔ وہ بھی ان ایام کے عام روٹ کے مطابق بنگال کے کنارے سفر کرتے ہوئے ملا کا پہنچے تھے۔ ان کی گوری رنگت دیکھ کر ملاکا کے لوگ انہیں اپنی ملئی زبان میں ’’بنگالی پوتیح‘‘ کہنے لگے۔ یعنی گورے بنگالی! سو ٹھٹھہ کی اطراف کے لوگ بھی آغاز میں آنے والے انگریزوں کو پرتگالی ہی سمجھتے تھے۔ پھر جب رفتہ رفتہ انگریزوں نے یہاں قدم جمالیے اور طویل عرصہ ان کا راج قائم رہا تو مقامی لوگ پرتگالیوں کو بھول گئے … اب ان کے لئے ہر یورپی گورا ’’انگریز‘‘ تھا۔ خواہ وہ جرمن ہو یا فرنچ، سب کو انگریز سمجھا جانے لگا۔ وہ سب کی عزت کرنے اور ان سے ڈرنے لگے تھے جتنا کہ انگریزوں سے ! یہی سبب ہے کہ 1947 میں انگریز راج کے خاتمے پر جرمنوں کو بھی افسوس ہوا تھا۔ گو کہ انگریز ان سے شدید نفرت کرتے تھے، لیکن ہمارے برصغیر کے لوگ انہیں بھی انگریز سمجھ کر سر آنکھوں پر بٹھاتے تھے۔
پرتگالی پہلے یورپین تھے جو ’’کیپ آف گڈ ہوپ‘‘ کے سمندری حصے سے گزر کر بحر ہند میں داخل ہوئے اور 1498 میں انڈیا کی بندرگاہ کالیکٹ میں پہنچے۔ اس کے بعد ان لوگوں کی آمد مسلسل جاری رہی اور وہ انڈیا کے مختلف حصوں پر اپنا اثر و اسوخ جماتے رہے۔ کہیں انہوں نے کاروبار کیا … یعنی پرتگال سے لایا جانے والا سامان انڈیا کے مختلف شہروں میں فروخت کر کے انڈیا کا سامان، خاص طور پر گرم مصالحہ، کپڑا، سونے چاندی کے زیورات، تانبے اور پیتل کے برتن خرید کر پرتگال روانہ کرتے تھے۔ سمندر میں جہاں بھی انہیں موقع ملتا قزاقی کر گزرتے تھے۔ ان کے پاس آتشیں اسلحہ موجود ہوتا تھا۔ ان کی مدد سے دوسرے جہاز والوں کو ڈرا دھمکا کر ان کا سامان اور نقدی وغیرہ چھین لیتے تھے۔ حتیٰ کہ انہوں نے حاجیوں کے جہازوں کو بھی لوٹا۔ میرا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ چور یا ڈاکو صرف پرتگالی تھے اور دیگر سب، ہم سمیت بڑے نیک، شریف اور حاجی غازی تھے۔ قزاقی میں ہم سندھی بھی کم نہیں تھے۔ ان پرتگالیوں، عربوں اور عمانیوں سے بھی پہلے بحرعرب پر سندھی، ملباری اور کوکنی قزاقوں کا راج تھا۔
بہرحال یہ یورپی (پرتگالی) لٹیرے تجارت بھی کرتے تھے۔ چوری، چکاری اور لوٹ مار سے بھی باز نہیں آتے تھے۔ یعنی ’’کچھ تلوایا اور کچھ چرایا‘‘ پر عمل کرتے تھے۔ راجائوں، نوابوں اور رئیسوں کے مشیر بھی بن کر رہتے تھے۔ کہیں دو مقامی راجائوں یا نوابوں کے درمیان کھٹ پٹ ہو جاتی تو بندوق اور بارود کے ساتھ خود کو کسی ایک پارٹی کے ہاتھ ’’کرائے‘‘ پر پیش کرتے تھے۔ فتح یاب ہونے کی صورت میں وہ اس راجا، نواب یا قبیلے کے سردار سے زمین اور خوب مال بھی وصول کرتے تھے۔ اس کے علاوہ ٹیکس وغیرہ بھی معاف کرا لیتے تھے۔
انڈیا میں پہلا انگریز 1608ء میں آیا تھا… یعنی پہلے پرتگالی کی آمد سے ایک صدی بعد! سندھ میں ڈاکٹر جیمس برنس 1827ء میں آیا۔ (اس کے یا شاید اس کے بھائی سر الیگزنڈر برنس کے نام سے موسوم کراچی میں ’’برنس روڈ‘‘ ہے) یعنی ٹھٹھہ سندھ میں پرتگالیوں کی آمد سے تین صدیوں کی بعد! اب قارئین سوچ سکتے ہیں کہ تین صدیوں تک ٹھٹھہ اور سجاول کی اطراف کے لوگوں نے جو یورپین گورے دیکھے تھے وہ صرف پرتگالی تھے۔ ان کے بعد جو اکا دکا انگریز یہاں آتا رہا اسے بھی ابتدا میں مقامی سندھی لوگ پرتگالی ہی سمجھتے رہے۔ یہاں یہ بھی تحریر کرتا چلوں کہ ڈاکٹر جیمس برنس کی سندھ میں آمد سے 70 برس قبل، سن 1758ء میں کلہوڑوں کا دور تھا اور اس وقت کے حاکموں نے انگریزوں کو شاہ بندر میں فیکٹری کھولنے کی اجازت دی تھی۔ لیکن انگریزوں کی بدنیتی کو بھانپ لیا گیا اور انہیں وہاں سے بھاگنا پڑا۔ پھر وہ انگریز انڈیا چلے گئے۔
بہرحال سندھ میں انگریزوں کی آمد اور اس وقت کے ہمارے حاکموں کا مختصر احوال تحریر کرتا ہوں۔ لیکن یاد رہے کہ پرتگالی سندھ میں انگریزوں کے آنے سے بہت پہلے ٹھٹھہ اور لاری بندر میںموجود تھے۔ تاریخ طاہری کے مطابق 1555ء میں ارغونوں اور ترخانوں کے درمیان خانہ جنگی (Civil war) ہوئی۔ اس دوران پرتگالیوں نے Mercenariesکے طور پر ارغونوں کی جانب سے ترخانوں کا قتل عام کیا۔ پرتگالیوں کی ’’خدمات‘‘ شاہ حسن ارغون نے کرائے پر حاصل کی تھیں۔ مرزا عیسیٰ بیگ کی غیر موجودگی میں پرتگالیوں نے ٹھٹھہ شہر میں ایک طرف تو خونریزی کی اور دوسری جانب کئی گھروں اور دکانوں کو آگ لگا دی تھی۔ آئندہ جب انگریز جہازوں پر سوار ہو کر سورت سے اس جانب لاری بندر اور ٹھٹھہ میں کاروبار کی غرض سے پہنچے تو انہیں سندھ میں پرتگالی نہ صرف بزنس کرتے ہوئے نظر آئے، بلکہ وہاں ان کی بڑی تعداد کو موجود بھی پایا۔
جب انڈیا میں پہلی بار 1612ء میں انگریز آئے تو یہاں چاروں طرف کاروبار پر پرتگالی قابض تھے۔ پہلے تو انہوں نے انگریزوں کو قدم جمانے ہی نہیں دیئے۔ مغل دربار تک ان کی رسائی تھی اور بادشاہ ان کی بات کو اہمیت دیتا تھا۔ اس لئے نہیں کہ پرتگالی ملٹری قوت رکھتے تھے یا وہ نیول جہازوں کے حامل تھے… بلکہ انہوں نے مغل گورنر کو آگاہ کیا تھا۔
’’اگر انگریزوں کو یہاں تجارت کرنے یا فیکٹری کھولنے کی اجازت دی گئی تو ہم اپنا تمام کاروبار سمیٹ کر، سورت اور دیگر بندرگاہوں کو سُونا اور ویران کر جائیں گے۔‘‘
مغل بادشاہ ایسا ہرگز نہیں چاہتا تھا۔ کیونکہ انہیں پرتگالیوں کے بزنس سے کافی ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی ملتی تھی۔ یہی سبب تھا کہ پہلے انگریز ہاکنس کو مغل بادشاہ جہانگیر نے گوکہ فیکٹری لگانے کی اجازت دے دی تھی۔ لیکن پرتگالیوں نے اس فرمان پر عمل درآمد نہیں ہونے دیا تھا۔ اس کے دو سال بعد ایک دوسرے انگریز سر تھامس رو نے سرتوڑ کوشش کے بعد دوبارہ یہ اجازت نامہ حاصل کیا… یہ تمام حقائق ٹی ایچ سورلی کی کتاب "Shah Abdul Latif of Bhit” اور مورلینڈ کی کتاب "From Akbar to Aurangzeb” سے لئے گئے ہیں۔
یہاں چند سطریں سندھ میں آنے والے اس انگریز ڈاکٹر جیمس برنس کے متعلق تحریر کرنا ضروری خیال کرتا ہوں۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے سندھ پر انگریزوں کے حملے کے لئے راہ ہموار کی تھی۔(جاری ہے)
Prev Post
Next Post