مریخ پر خلائی مخلوق کی تلاش کا آغاز

0

سدھارتھ شری واستو
مریخ پر پانی کی دریافت کے بعد زندگی کے آثار ملنے کی امید پیدا ہوگئی ہے۔ سائنسدانوں نے خلائی مخلوق کی تلاش کیلئے جدید سینسر اور کیمروں کا نظام تیار کر لیا ہے۔ سرخ سیارے پر انسانوں کو پہنچانے کی مشق کے طور پر 2020ء میں ہیلی کاپٹر بھی بھیجا جائے گا۔ ناسا سائنسدانوں نے تصدیق کی ہے کہ انہیں جدید ترین کیمروں اور سینسرز کی مدد سے سرخ سیارے پر زیر زمین پانی کی بڑی جھیل مل چکی ہے اور اب ان کی نگاہیں اس سیارے پر ممکنہ طور پر موجود خلائی مخلوق یا ایلین پر ہیں۔ جس کی تلاش میں ناسا کے سینکڑوں سائنسداں مشغول ہیں۔ خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ’’ناسا‘‘ ہیڈ کوارٹر میں موجود علم سیارگان کے ماہر جم گرین نے بتایا ہے کہ ان کو مریخ کی سطح پر موجود زیر زمین ڈیڑھ کلومیٹر کی گہرائی میں بہتا ہوا پانی مل چکا ہے، جو ایک بڑی جھیل کی شکل میں ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیارے پر زندگی بھی موجود ہوگی۔ اس سلسلے میں آسٹریلیا کی ریسرچ یونیورسٹی سون برن سے منسلک ایک پروفیسر ایلن ڈیفی کا کہنا ہے کہ ’’ہم اس نکتے پر پہنچ چکے ہیں کہ مریخ پر ماضی میں زندگی موجود تھی اور اب جھیل کی دریافت سے یقین کیا جا سکتا ہے کہ یہاں اب بھی زندگی یا اس کے آثار موجود ہوں گے۔ ہم خوش ہیں کہ اب مریخ پر بھیجے جانے والے مشن پر انسانوں کو بھیجا جا سکتا ہے، کیونکہ مریخ پر ان کی ضرورت بھر کا پانی موجود ہے۔ یعنی وہ مشن کی کامیابی کیلئے مریخ کی سطح پر زندہ رہ سکتے ہیں‘‘۔ دوسری جانب کئی سائنسی ماہرین ناقدانہ رائے رکھتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ ابھی جھیل کے پانی کو ٹیسٹ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ استعمال کے لائق ہے بھی یا نہیں۔ یہ پانی انتہائی سرد موسم میں جمی ہوئی کیفیت میں ہے اور اس میں میگنیشیم، کیلشیم اور سوڈیم کی بھاری مقدار موجود ہو سکتی ہے، جو انسانی صحت کیلئے مسائل کا سبب ہون سکتی ہے۔ امریکی ادارے ناسا نے بتایا ہے کہ اس کی جانب سے 2020ء میں ایک خلائی گاڑی سمیت چھوٹا ہیلی کاپٹر مریخ کی سطح پر بھیجا جائے گا، تاکہ مریخ کی فضا کے کسی ہیلی کاپٹرکی اڑان کیلئے موزوں ہونے یا نہ ہونے کا علم ہوجائے گا۔ یہ ہیلی کاپٹر اپنی اُڑان کیلئے شمسی توانائی کا استعمال کرے گا۔ امریکی خلائی تحقیق کے ادارے ناسا کے سائنس دانوں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ انہیں اس بارے میں کئی دہائیوں پہلے نظریاتی اعتبار سے شک تھا کہ مریخ پر پانی ماضی میں اس وقت موجود تھا جب یہاں کا ماحول اور درجہ حرارت گرم تھا، لیکن حالیہ ایام میں کی جانے والی تحقیق میں اس امر کا بھی علم ہوا ہے کہ مریخ پر نمکیاتی ذرات میں پانی کی معمولی مقدار موجود ہے۔ اس کام کیلئے امریکی سائنس دانوں نے ایسے جدید سینسر اور کیمروں کا نظام ترتیب دیا، جس کی مدد سے کسی بھی موٹی زمینی پرت کے اندر تک ریڈیائی لہریں بھیجی جائیں، جو واپس پر سگنل دیں کہ اندر پانی یا کوئی دھات موجود ہے۔ اس سلسلے میں امریکی خلائی تحقیق کے ادارے ناسا کے حکام کا کہنا ہے کہ ایک وقت تھا کہ جب مریخ پر پانی اس قدر زیادہ مقدار میں موجود تھا کہ آج کے آرکٹک میں بھی اتنا پانی نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ناسا سائنس دانوں کا اندازہ ہے کہ چار ارب سال قبل مریخ پر پانی سمندر کی صورت موجود تھا، جو 137 میٹر لگ بھگ تھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ پانی بخارات بن کر اُڑتا گیا اور آج اگرچہ مریخ کی عمومی سطح پر پانی موجود نہیں دکھائی دیتا لیکن اس کے آثار ضرور موجود ہیں۔ جس سے سائنسدان اب ایک قدم آگے بڑھ کر تحقیق کررہے ہیں کہ جب مریخ پر پانی کی جھیل موجود ہے تو یقیناً یہاں مریخ کی اپنی مخلوق بھی ہوگی۔ ناسا کے محقیقین و دیگر عالمی سائنسی ماہرین کے حوالے سے جرمن ریڈیو ’’ڈوئچے ویلے‘‘ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ماہرین فلکیات نے جدید سائنسی آلات کی مدد سے مریخ کی سطح پر جمی برف کے نیچے 16کلومیٹر کے لگ بھگ ایک بڑی مائع پانی کی جھیل دریافت کرنے کی تصدیق کردی ہے۔ سائنسی تحقیق کے امریکی جریدے ’’سائنس‘‘ کے مطابق مریخ کی رپورٹ کو اطالوی ماہرین نے مرتب کیا ہے اور ایک نیوز کانفرنس میں اطالوی خلائی تحقیق کے ادارے سے منسلک ماہرین نے بتایا ہے کہ سرخ سیارے پر پانی ملنے کی انتہائی خوشی ہے اور اب اگلا مرحلہ خلائی مخلوق کی تلاش ہے۔ شریک سائنسداں ایریکو فلامینی کا کہنا ہے کہ کوئی شک نہیں ہے کہ پانی مریخ پر موجود ہے اور انسان وہاں جاسکتا ہے، رہ سکتا ہے اور زراعت بھی کرسکتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ مریخ کے پانی کا تجزیہ کریں کہ آیا کہ یہ زمینی سطح پر پائے جانے والے پانی کی طرح ہے یا مختلف ہے۔ اس وقت یہ پانی منجمد شکل میں ہے۔ ماضی میں خیال کیا جاتا تھا کہ مریخ بنجر ہے اور یہاں پانی کا کوئی وجود نہیں ہے لیکن ہمارا خیال غلط ثابت ہوا ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More