نجم الحسن عارف
عمران خان کی جانب سے وزیر اعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے کا اعلان بڑھک کے سوا کچھ نہیں، کیونکہ اس سے نہ صرف اسلام آباد کا ماسٹر پلان متاثر ہوگا، بلکہ سیکورٹی مسائل بھی حائل ہوں گے۔ ریڈ زون میں ہونے کے سبب طلبہ کو بھی شدید مشکلات پیش آئیں گی۔ تحریک انصاف کے چیئرمین نے 5 برس قبل خیبر پختون گورنر ہائوس کو بھی تعلیمی ادارہ بنانے کا دعویٰ کیا تھا، جو اب تک پورا نہ ہو سکا۔
پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے الیکشن جیتنے کے بعد ہی اپنی مقبولیت بڑھانے کیلئے وزیراعظم ہائوس کو یونیورسٹی بنانے کے ناقابل عمل منصوبے کا اعلان کر دیا۔ نواز لیگ کے قائد میاں نواز شریف نے بھی 2013ء میں وزیراعظم منتخب ہونے کے فوری بعد سادگی اپنانے کی ایسی ہی کوشش کی تھی۔ نواز شریف نے کہا تھا کہ وہ وزیراعظم ہائوس میں نہیں رہنا چاہتے بلکہ پنجاب ہائوس میں رہیں گے۔ لیکن سیکورٹی وجوہات کی بنیاد پر انہیں کلیئرنس نہیں مل سکی تھی۔ ذرائع کے مطابق ریڈ زون میں واقع ہونے کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ یونیورسٹی بننے کی صورت میں طلبہ کو بہت ساری مشکلات اور جگہ جگہ چیکنگ کا سامنا کرنا پڑے گا، بلکہ پاکستان سیکریٹریٹ کے حکام اور ملازمین بھی متاثر ہوں گے۔ جبکہ 8 سے 10 بیڈ روم پر مشتمل وزیراعظم ہائوس اور اتنے ہی کمروں پر مشتمل اعلیٰ افسروں کی رہائش گاہوں کو یونیورسٹی میں بدلنے کیلئے از سر نو تبدیلی کرنا پڑے گی۔ اس مقصد کیلئے اسلام آباد کا ماسٹر پلان بھی متاثر ہو گا اور سی ڈی اے کی منظوری کی بھی ضرورت ہو گی۔ ذرائع کے مطابق عمران خان جب قوم سے مخاطب تھے، اس سے پہلے ان کی نجی رہائش گاہ بنی گالہ میں سرکاری وی وی آئی پی پروٹوکول اور سیکورٹی حکام پہنچ چکے تھے۔ جنہوں نے نہ صرف ان کے گھر کا سیکورٹی آڈٹ کرنا شروع کر دیا بلکہ فوری طور پر گھر کے باہر اہلکاروں کا گشت شروع کرایا۔ عمران خان کی نقل و حرکت کیلئے پولیس کمانڈوز کا دستہ اور گھر کے باہر ہمہ وقت ایمبولینس کی فراہمی ممکن بنا دی گئی ہے۔ یہ بھی ہدایت کی گئی ہے کہ عمران خان کو باہر جانا ہو تو پیشگی متعلقہ حکام کو بتایا جائے، تاکہ سڑکوں پر ٹریفک بلاک کرکے خصوصی روٹ لگا دیا جائے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ عمران خان اگر وزیراعظم بننے سے پہلے لاہور یا کسی دوسرے شہر گئے تو انہیں ہر جگہ وزیراعظم جیسا پروٹوکول دیا جائے گا۔
ان ذرائع کے مطابق چند دن کی بات ہے کہ عمران خان بھی ایسی ساری باتوں کو بھول جائیں گے اور انہیں پروٹوکول کی زندگی کی عادت ہو جائے گی۔ ذرائع کے مطابق جس شخص کو وزیراعظم بننے سے بہت پہلے کئی سو کنال پر پھیلے وسیع و عریض گھر (بنی گالہ) میں رہنے کی عادت ہو وہ اپنے ہی اعلان کے مطابق منسٹرز انکلیو میں کیسے رہے گا۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ سادگی کے کھاتے میں بنی گالہ رہائش گاہ میں رہنے کا اعلان کر کے اسے ہی وزیراعظم ہائوس قرار دلوا لیں اور بعد میں سرکاری وسائل میں اس کی تعمیر و مرمت سے لے کر تزئین و آرائش کے سارے اخراجات ممکن بنائیں۔ ذرائع کے مطابق اگر وہ اپنے اعلان کے مطابق منسٹرز کالونی میں رہنے کی خواہش پر کاربند رہے تو یہ ایک قابل عمل پروگرام ہو سکتا ہے کہ دو وزیروں کی رہائش گاہ کو جوڑ کر اسے وزیراعظم ہائوس بنایا دیا جائے۔ نیز منسٹرز کالونی کیلیے مزید بہت سارے سیکورٹی اخراجات بھی نہیں ہوں گے۔ واضح رہے اس سے قبل عمران خان نے گورنر ہائوس خیبر پختون کو بھی یونیورسٹی میں بدلنے کا اعلان کیا تھا، لیکن پانچ سال گزرنے کے باوجود ایسا نہ ہو سکا۔
پی ٹی آئی کے ایک ذمہ دار نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے بتایا یہ سب صرف باتیں ہیں۔ ایسی کوئی بات اتنی اہم سمجھی جاتی تو منشور میں اس کا ذکر بھی ہوتا۔ ان ذرائع نے کہا کہ خیبر پختون کے گورنر ہائوس کو یونیورسٹی میں تبدیل نہ کرنے میں پہلے کہا گیا کہ یہ وفاق ہی کر سکتا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ تاہم بہتر یہ ہے کہ اپنی تاریخ اور روایت کو زندہ رکھتے ہوئے اسے میوزیم میں تبدیل کر دیا جائے۔
دوسری جانب اسلام آباد میں تعینات رہنے والے سابق آئی جی پولیس طاہر عالم خان نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا جب 2013ء میں میاں نواز شریف وزیراعظم بنے تو انہوں نے پنجاب ہائوس میں بسیرا کرنے کا اعلان کیا۔ بطور ڈی آئی جی سیکورٹی میں نے پنجاب ہائوس کو غیر محفوظ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعظم جہاں رہائش اختیار کرنا چاہتے ہیں وہ مارگلہ ہلز کی جانب سے قریب تھا۔ اس لئے مارگلہ ہلز کی جھاڑیوں اور درختوں کی اوٹ سے کوئی تخریب کار راکٹ فائر کر سکتا تھا، مگر میری اس رپورٹ پر وزیراعظم ناراض ہوگئے اور میرا تبادلہ کر دیا گیا۔ ایک سوال کے جواب میں طاہر عالم خان نے کہا کہ اس سلسلے میں بہترین آپشن منسٹرز انکلیو ہو سکتا ہے۔ بصورت دیگر بنی گالہ سے ہر روز وزیراعظم سیکریٹریٹ آنا مناسب نہیں۔ راجہ پرویز اشرف جب وزیراعظم بنے تو ان کی رہائش بھی اسی جانب تھی ان کے راستے میں کم از کم دو مرتبہ گھاس میں بم چھپائے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ بنی گالہ کی سیکورٹی کیلئے اگرچہ اقدامات کرنا ہوں گے لیکن اس کے اخراجات پی ایم ہائوس کی سیکورٹی سے کم ہوں گے۔ لیکن راستے میں سیکورٹی اقدامات کرنے سے اخراجات تقریباً برابر ہی ہو جائیں گے۔
واضح رہے کہ 2018 میں سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف نے بھی اعلان کیا تھا کہ پرویز الٰہی نے بطور وزیراعلیٰ 8 کلب روڈ پر بہت اخراجات کئے ہیں۔ وہ اس دفتر کو استعمال نہیں کریں گے تاکہ اخراجات کم کئے جاسکیں۔ بعدازاں وہ خود تو 7 کلب روڈ میں بیٹھے لیکن ان کے سیکریٹری اور اسٹاف 8 کلب روڈ میں ہی رہے۔
طاہر عالم خان نے کہا کہ پی ایم ہائوس کو ختم کرنے سے کچھ اور ایشوز کا بھی سامنا ہو گا کہ اس کے اندر بہت سے افسروں کی رہائش گاہیں ہیں۔ وہ اور عملے کے لوگ بھی ڈسٹرب ہوں گے۔ اگر اخراجات کم کرنا مقصود ہے تو وہ تو وزیراعظم ہائوس میں رہ کر بھی کم رکھے جاتے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ریڈ زون مستقل نہیں نہ ہی یہ کوئی قانونی چیز ہے، بلکہ انتظامی اقدامات کے تحت 2007ء میں لال مسجد آپریشن کے بعد اس کی ضرورت محسوس کی گئی تھی۔ اس کے داخلی اور خارجہ راستوں پر عام شہریوں کی جامہ تلاشی بھی پرانے پولیس ایکٹ کے تحت جائز نہیں۔
دوسری جانب قانونی ماہر اے کے ڈوگر نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نے تو اس سلسلے میں عدالت میں پہلے ہی ایک درخواست دائر کر رکھی ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے جو اعلان کیا تھا اس پر عمل کریں۔ بلکہ جس روز ان کا سادگی والا بیان آیا تھا، اگلے ہی روز وزیر اعظم ہاؤس کیلئے 24 لاکھ کے سراغ رساں کتے اور 12 کروڑ کی دو گاڑیاں خریدنے کی خبریں آگئیں۔ یہ رٹ ابھی تک ہائی کورٹ میں زیرالتوا ہے اگر عمران خان نے بھی عمل نہ کیا تو وہ بھی اس درخواست میں فریق بن جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے کہ وزیراعظم سادگی اختیار کریں۔ سابق پرنسپل سیکریٹری سعید مہدی نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سی ڈی اے قوانین رکاوٹ نہیں بنتے نہ ماسٹر پلان میں تبدیلی وزیراعظم کیلئے مسئلہ ہو سکتا ہے۔ اسلام آباد میں عمارتوں کے ڈیزائن اور دیگر تبدیلیوں کیلئے سی ڈی اے سے اجازت لینا ضروری ہے۔