دوبارہ انتخابات کے مطالبےپر مولانافضل الرحمان تنہا رہ گئے

0

امت رپورٹ/ مرزا عبدالقدوس
مولانا فضل الرحمن نے دوبارہ انتخابات کا مطالبہ تو کر دیا ہے، لیکن ان کے اس مطالبے کو تسلیم کرنے سے نواز لیگ سمیت دیگر جماعتیں ہچکچا رہی ہیں۔ جبکہ ایم ایم اے کی رکن جماعت اسلامی بھی فوری ردعمل دینے سے گریزاں ہے کہ اسے ملک بھر کے اضلاع سے اپنے پولنگ ایجنٹوں کی رپورٹس کا انتظار ہے۔ البتہ اے این پی نے یہ تجویز رکھی ہے کہ جب تک اے پی سی میں شریک جماعتیں کسی فیصلے پر متفق نہیں ہو جاتیں، ان جماعتوں کے منتخب ارکان حلف نہ اٹھائیں۔ جے یو آئی (ف) کے قائد اور ایم ایم اے کے سربراہ کی جانب سے دھاندلی کے خلاف بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس رات گئے تک جاری رہی۔ نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان میاں محمد اسلم کے گھر پر ہونے والی اس کل جماعتی کانفرنس میں پیپلز پارٹی کا کوئی نمائندہ شریک نہیں ہوا۔ جن پارٹیوں کے نمائندوں نے شرکت کی ان میں مسلم لیگ (ن)، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی، اے این پی، نیشنل پارٹی، پی ایس پی اور ایم کیو ایم سے ناراض فاروق ستار شامل ہیں۔ جبکہ اس اے پی سی میں تحریک لبیک پاکستان کو شرکت کی دعوت ہی نہیں دی گئی۔ ٹی ایل پی اپنے طور پر احتجاج کا لائحہ عمل طے کرے گی۔
مولانا فضل الرحمان کی طلب کردہ آل پارٹیز کانفرنس نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان میاں محمد اسلم لے گھر پر جاری تھی۔ مسلم لیگ (ن) کے بھاری بھرکم وفد نے کل جماعتی کانفرنس میں شرکت تو کی ہے، تاہم اس لیگی وفد نے مولانا فضل الرحمن کے دوبارہ الیکشن کے مطالبے پر غور کا عندیہ دیتے ہوئے اسے اپنی مجلس عاملہ کی مشاورت سے مشروط کر دیا ہے۔ جبکہ جماعت اسلامی کی قیادت بھی اس معاملے میں فضل الرحمن کا ساتھ دینے سے گریز کر رہی ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے ترجمان امیرالعظیم نے کہا کہ نتائج بڑی حد تک پہلے سے سامنے تھے، لیکن سب نے ہمت اور یکسوئی کے ساتھ کام کیا۔ امیرالعظیم جو حلقہ این اے 135 سے متحدہ مجلس عمل کے امیدوار بھی ہیں، نے تحریک انصاف کو کامیابی پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو برسوں کی محنت شاقہ پر مبارکباد نہ دینا زیادتی ہوگی۔ انہیں بائیس برس کی محنت کا پھل مل گیا ہے۔ ایک سوال پر امیرالعظیم کا کہنا تھا کہ ’’ہم آئندہ برس بتائیں گے کہ قوم کے لیے یہ پھل میٹھا ہے یا کڑوا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس میں ملک و قوم اور امت مسلمہ کے لیے خیر پیدا کر دے‘‘۔ اس کانفرنس میں پیپلز پارٹی کا کوئی نمائندہ شریک نہیں ہوا اور کانفرنس کے منتظمین کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نے ان سے معذرت کرلی تھی۔ جبکہ آفتاب شیر پائو کی قومی وطن پارٹی نے دھاندلی کی شکایت کرنے کے باوجود بھی اس کانفرنس میں شرکت نہیں کی۔ کانفرنس میں شرکت کے لیے مسلم لیگ (ن) کا 21 رکنی وفد پہنچا تھا، جس میں نواز لیگ کے صدر شہباز شریف، راجہ ظفرالحق، مشاہد حسین، مریم اورنگ زیب، انجم عقیل، خرم دستگیر، سردار ایاز صادق اور دیگر شامل تھے۔ کانفرنس کے میزبان مولانا فضل الرحمن اور اکرم درانی کے ساتھ امیر جماعت اسلامی سراج الحق اور لیاقت بلوچ کے علاوہ جماعت اسلامی کے دیگر کئی رہنما موجود تھے۔ مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حفیظ الرحمن بھی موجود تھے۔ ان کے علاوہ وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر بھی تھے۔ رات نو بجے کے بعد پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی بھی پہنچ گئے تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ محمود خان اچکزئی نے اے پی سی میں شرکت تو کی، لیکن وہ ایسی افرادی و انتظامی قوت نہیں رکھتے جس سے مولانا فضل الرحمان کو تقویت مل سکے۔ نیشنل پارٹی کے حاصل بزنجو بھی بیان بازی کی حد تک ہی ساتھ دے سکیں گے۔ البتہ اے این پی کی جانب سے اے پی سی میں یہ تجویز رکھی گئی ہے کہ جب تک تمام پارٹیاں کسی ایک نتیجے پر نہیں پہنچتیں اور متفقہ فیصلہ سامنے نہیں آتا، اس وقت تک ان جماعتوں کے کامیاب ہونے والے اراکین حلف نہ اٹھائیں اور اس کا بائیکاٹ کر دیا جائے۔ تاہم ذرائع کے بقول مسلم لیگ (ن) نے اس پر بھی صاد نہیں کیا کیونکہ اس کے منتخب ارکان کسی بھی قسم کے احتجاج پر آمادہ نہیں۔ نواز لیگ کے ایک اہم رہنما نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ یہ سب کچھ ایک رسمی سا احتجاج ہے، جو اراکین کے حلف اٹھانے کے بعد دم توڑ جائے گا۔ ادھر جماعت اسلامی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ ملک بھر کے تمام اضلاع سے اپنے پولنگ ایجنٹوں سے معلومات جمع کر رہے ہیں۔ ان کی رپورٹس موصول ہونے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔ غلام احمد بلور کی جانب سے انتخابات کو شفاف اور اپنی شکست تسلیم کرنے کے باوجود اے این پی کے اسفند یار ولی اور بشیر بلور کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے۔ مسلم لیگ ن کے اتحادی نیشنل پارٹی کے میر حاصل خان بزنجو بھی موجود تھے۔ ان کے ساتھ علامہ اویس نورانی اور علامہ ساجد نقوی بھی تھے۔ ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی کی جانب سے انکار کرنے کے باوجود فاروق ستار اس کانفرنس میں چلے آئے۔ خالد مقبول صدیقی تحریک انصاف کے اتحادی بننے کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور فاروق ستار ان سے روٹھ کر مولانافضل الرحمن کا ساتھ دینے اسلام آباد پہنچ گئے۔ صرف وہی نہیں، ان کے پیچھے پیچھے پی ایس پی کے رہنما مصطفی کمال بھی اپنا شکوہ لے کر کل جماعتی کانفرنس میں پہنچ گئے۔ مصطفیٰ کمال کل تک یہ ظاہر کرتے تھے کہ ان کے سر پر اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے۔ لیکن افادیت ختم ہونے کے بعد کمال گروپ اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ نواز لیگ کے رہنما سینیٹر پرویز رشید نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دوبارہ انتخابات کا مطالبہ مولانا فضل الرحمن کی خواہش ہے۔ کل جماعتی کانفرنس میں دوسری جماعتوں کا موقف بھی سنا جائے گا، ان سب کی شکایات کو مدنظر رکھا جائے گا، ان کی تجاویز کو مرتب کیا جائے گا، اس کے بعد اعلامیہ جاری ہوگا۔ تمام جماعتیں اپنی اپنی مجلس عاملہ سے ان مطالبات کی منظوری لیں گی۔ فی الحال صرف اس حد تک اتفاق ہے کہ اس الیکشن میں ایک خاص سیاسی جماعت کو کامیابی دلانے کے لیے ایک خاص طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے اورگنتی کے عمل میں گڑبڑ کی گئی۔ یہ معاملہ شفاف نہیں ہے۔ ایک سوال پر پرویز رشید کا کہنا تھا کہ پہلے دھاندلی کا عمل ان لوگوں کو نظر آتا تھا جو انتخابی عمل میں شریک ہوتے تھے۔ لیکن آج کے سوشل میڈیا کے دور میں دھاندلی ویڈیو کلپس کی صورت میں سب کے سامنے ہے۔ لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ نئے انتخابات کا انعقاد چاہتے ہیں۔ جبکہ موجودہ انتخابات پر الیکشن کمیشن کے 21 ارب روپے خرچ ہوئے ہیں اور سیکورٹی کے اخراجات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ خود امیدواروں کے کروڑوں روپے اس انتخابات پر خرچ ہوئے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے ووٹوں کی گنتی کا نرخ 100 روپے فی ووٹ مقرر کیا ہے۔ ووٹوں کی دوبارہ گنتی میں امیدواروں کے کروڑوں روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن اور عدالت میں دھاندلی کے ٹھوس ثبوت پیش کرنا ہوں گے۔ اس کے بعد ہی الیکشن کو منسوخ اور ناجائز قرار دلوا یا جاسکتا ہے۔
ادھر تحریک لبیک پاکستان کو آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی دعوت ہی نہیں دی گئی۔ اگر آئندہ مولانا فضل الرحمان یا کسی دوسری سیاسی یا مذہبی جماعت نے الیکشن نتائج کے بعد کی حکمت عملی پر غور کے لئے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی تو اس کے بارے میں فیصلہ ٹی ایل پی کی مرکزی شوریٰ کرے گی۔ فی الوقت تحریک لبیک کیا حکمت عملی بنارہی ہے، اس حوالے سے تحریک لبیک پاکستان کے سرپرست اعلیٰ اور بزرگ عالم دین پیر محمد افضل قادری نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارا گزشتہ روز ہونے والا اجلاس منسوخ ہوگیا تھا اب آج (ہفتہ کو) یا کل اتوار کو مرکزی شوریٰ کا مکمل اجلاس ہوگا۔ ہم ایک جامع رپورٹ تیار کر رہے ہیں جس میں اس تکنیکی خرابیوں اور دھاندلی کیلئے جو حربے استعمال ہوئے، ان سب کو سامنے لائیں گے۔ ہم بخوبی جانتے اور سمجھتے ہیں کہ جس ادارے کے لوگوں نے یا الیکشن کمیشن نے یہ دھاندلی اور خرابیاں کیں، ان کے پاس ہمارے ہر سوال کا پہلے سے گھڑا گھڑایا جواب موجود ہوگا۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ بدترین دھاندلی ہوئی ہے۔ خاص طور پر مذہبی جماعتوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اور اس میں بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث کی کوئی تفریق نہیں کی گئی۔ ہمارے امیر محترم نے گزشتہ روز ہونے والی شوریٰ کے مختصر اجلاس میں الیکشن کمیشن سے دو مطالبے کئے ہیں۔ اول یہ کہ دوبارہ الیکشن کرایا جائے یا پھر ہمارا مینڈیٹ ہمیں واپس کیا جائے۔ ہم جو رپورٹ مرتب کر رہے ہیں، اس کے مطابق قومی اسمبلی کے چالیس حلقوں میں ہمارے امیدوار جیت رہے تھے، جنہیں منصوبے کے تحت شکست سے دو چار کیا گیا۔ اگر ہمارے مطالبات تسلیم نہ ہوئے تو ابتدائی مرحلے میں اسمبلیوں اور الیکشن کمیشن کے دفاتر کے سامنے احتجاج اور دھرنا ہوگا اور اگلے مرحلے میں اس کا دائرہ ملکی سطح پر بڑھایا بھی جاسکتا ہے‘‘۔ ایک سوال پر پیر محمد افضل قادری نے کہا کہ ’’غیر ملکی طاقتوں کے ایجنڈے پر مذہبی جماعتوں کو دبایا گیا ہے اور یہ مذہب پر حملہ ہے۔ ہمارا اب تک کسی دوسری جماعت سے اس حوالے سے رابطہ نہیں ہوا۔ اگر مولانا فضل الرحمان یا کسی دوسری سیاسی یا مذہبی جماعت نے الیکشن نتائج کے بعد کی حکمت عملی پر غور کے لئے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی تو اس کے بارے میں فیصلہ ہماری مرکزی شوریٰ کرے گی‘‘۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More