پاکستان کے اندر اور بیرونی ممالک میں یہ بحث اب تک جاری ہے کہ حالیہ عام انتخابات منصفانہ، غیر جانبدارانہ اور صاف و شفاف ہوئے یا ماضی کے مقابلے میں اس بار دھاندلی کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے گئے۔ دو باتیں انتخابات کو زیادہ مشکوک بنا رہی ہیں۔ ایک یہ کہ حتمی انتخابی نتائج کے اعلان میں غیرمعمولی تاخیر کی گئی۔ اس میں بھی یہ پہلو زیادہ اہم ہے کہ دور دراز کے اور لاکھوں ووٹوں کی گنتی بہت جلد ہوگئی اور کامیاب امیدواروں کے ناموں کا اعلان بھی فوراً ہی کر دیا گیا، جبکہ کراچی اور لاہور جیسے ترقی یافتہ اور تیز رفتار مواصلاتی نظام کے حامل شہروں کے نتائج چھبیس اور ستائیس جولائی تک جاری کئے جاتے رہے۔ آر ٹی ایس کی خرابی کو اس کا جواز نہیں بنایا جا سکتا۔ ان مشینوں کو انتخابات سے قبل پوری طرح چیک اور ٹیسٹ کیا جانا چاہئے تھا۔ علاوہ ازیں ان کی وجہ سے مخصوص شہروں اور حلقوں کے نتائج ہی میں کیوں تاخیر ہوئی؟ دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان کی انتخابی تاریخ میں یہ دوسرا موقع ہے کہ جیتنے والی جماعت کے سوا باقی تمام جماعتوں نے بدترین دھاندلی، بے ضابطگی اور بدنظمی کے الزامات عائد کر کے نتائج تسلیم نہیں کئے ہیں۔ اس سے قبل 1977ء کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کی تاریخی دھاندلی کے نتیجے میں نوجماعتوں کی زبردست تحریک چلی تھی۔ تاہم بعض چھوٹی جماعتیں اور آزاد امیدوار حکومت بنانے والی قومی اور صوبائی حکومتوں کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالنے کے لیے سودے بازی کرنے میں مصروف ہیں۔ وفاق میں حکومت سازی کے لیے تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل نہیں ہو سکی ہے، لہٰذا وہ بھی چھوٹی جماعتوں اور آزاد ارکان کا دبائو قبول کرنے پر مجبور ہوگی۔ سندھ اور خیبر پختونخوا میں بالترتیب پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف واضح اکثریت سے کامیاب ہوئی ہیں، اس لیے ان دونوں صوبوں میں جوڑ توڑ اور خریدو فروخت کی زیادہ ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ حکومت سازی کے لیے سب سے زیادہ مشکل آبادی کے لحاظ سے بڑے صوبے پنجاب میں پیش آئے گی، جہاں مسلم لیگ کا زور بری طرح ٹوٹا ہے اور تحریک انصاف اس کے تقریباً برابر نشستوں پر اپنے امیدواروں کو کامیابی سے ہمکنار کرا چکی ہے۔ بلوچستان میں بلوچستان نیشنل پارٹی کو سب سے زیادہ نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ تاہم تحریک انصاف وہاں بھی اپنی صوبائی حکومت بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ ایک طرف یورپی یونین نے انتخابات کی شفافیت پر کئی سوالات اٹھائے ہیں تو دوسری جانب ایک غیر سرکاری تنظیم فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے کہا ہے کہ بعض شکایات کے باوجود 2013ء کے مقابلے میں حالیہ انتخابات نسبتاً پرسکون رہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ پاکستان میں عام انتخابات کم و بیش اسی طرح منعقد ہوتے ہیں، جیسے پچیس جولائی کو ہوئے۔ جیتنے والے انہیں صاف و شفاف قرار دیتے ہیں تو ہارنے والے دھاندلی کے الزامات لگا کر کچھ عرصے تک شورو غوغا کر کے خاموش ہو جاتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ پر ہمیشہ اور ہر حلقے کی جانب سے مبہم الزامات عائد کئے جاتے ہیں، لیکن ثبوت و شواہد کے ساتھ کھل کر کوئی سامنے نہیں آتا اور یہ بھی نہیں بتاتا کہ آخر انتخابی عمل میں اس کی مداخلت کی وجوہ کیا ہیں اور اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ کسی ایک جماعت کے ساتھ کیوں نہیں ہوتی۔ اس نے اگر کئی سال تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کو باری باری موقع دیا اور اس مرتبہ تحریک انصاف کو کامیاب کرایا تو وہ کیا چاہتی ہے۔ کیا وہ محب وطن نہیں؟
اب تک جو نتائج سامنے آچکے ہیں، ان کے مطابق وفاق اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونا یقینی نظر آرہا ہے۔ تاہم یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وفاقی حکومت کو کام کرنے کا موقع دیا جائے گا یا جواب آں غزل کے طور پر مخالف جماعتیں اس کے خلاف احتجاج، مظاہروں اور دھرنوں کا وہی کھیل کھیلتی رہیں گی، جو عمران خان اور طاہر القادری کھیل چکے ہیں۔ اگر تحریک انصاف کی حکومت قائم ہو کر برقرار رہنے میں بھی کامیاب ہو گئی تو اسے نہایت گمبھیر چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان کے ذکر سے پہلے یہ یقین دہانی حاصل کرنا ضروری ہے کہ عمران خان پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا جو واضح اعلان کر چکے ہیں، کیا وہ اس کی تکمیل میں پچاس فیصد بھی کامیاب ہو جائیں گے؟ وہ اگر پاکستان کا مسلم تشخص بھی برقرار رکھ سکیں تو یہ ایک بڑا کام ہو گا۔ اس کے لیے انہیں بنی گالہ کے اندر کی مصروفیات اور مشاغل سے اپنے ساتھیوں سمیت نکل کر سب سے پہلے اپنے نفس پر قابو پانا ہو گا۔ تاریخ اسلام سے ایک نہایت روشن مثال پیش کی جا سکتی ہے کہ شراب کو حرام قرار دیئے جانے سے قبل عرب معاشرے میں یہ ام الخبائث عام تھی اور بہت سے مسلمان بھی اس لت میں مبتلا تھے۔ لیکن جوں ہی وحی الٰہی کے ذریعے شراب کی حرمت کا حکم پہنچا تو مسلمانوں کے ایمان کی پختگی کا یہ شاندار مظاہرہ دیکھنے میں آیا کہ شراب کا پیالہ کسی کے لب تک پہنچ چکا تھا تو اس نے اسے وہیں سے زمین پر پٹک دیا اور اس لعنت سے ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کر لی۔ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ اس خیال سے کبھی شراب کے قریب تک نہیں گئے کہ آپؓ اسے شرف انسانیت کی تذلیل کا ذریعہ تصور فرماتے تھے۔ نئی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ملک کے اقتصادی مسائل پر قابو پانا ہوگا، جنہیں سابقہ حکومتوں نے پاتال میں پہنچا دیا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما اور متوقع وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کا یہ بیان نہایت حوصلہ افزا ہے کہ ہم آئی ایم ایف سے مدد نہیں مانگیں گے۔ جن چوروں کی وجہ سے معیشت بدحال ہوئی ہے، ہم ان سب کو پکڑیں گے اور کھایا ہوا مال ان سے نکلوائیں گے۔ یاد رہے کہ ملک میں احتساب کا عمل پہلے ہی جاری ہے۔ حکومت اگر عزم کر لے تو یہ ناممکن نہیں۔ لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے علاوہ دوست ممالک اور عوام کے تعاون سے آئی ایم ایف یا دوسرے سود خور عالمی مالیاتی اداروں کی مدد کے بغیر غربت، بیروزگاری، بھوک، جہالت اور امراض کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ تعاون کی سب سے پہلے یقین دہانی کرانے والوں میں برادر مسلم ملک سعودی عرب اور ہر مشکل گھڑی کا آزمودہ پیش پیش ہیں۔ تر کی بھی یقیناً کسی سے پیچھے نہیں رہے گا۔ تیسرا بڑا چیلنج متوازن خارجہ پالیسی ہے، جسے سابقہ حکومتوں نے ہمیشہ نظر انداز کیا، وہ صرف اپنے خاندانوں، گروہوں اور اعزہ و اقارب کی خاطر ملک و قوم کو دائو پر لگاتے ہوئے بیرونی تعلقات قائم کرتے رہے۔ قومی معیشت کو تباہی کے گڑھے تک پہنچانے میں اس پالیسی نے بدترین کردار ادا کیا، جس سے آئندہ بچنا ناگزیر ہو گا۔ جنرل پرویز مشرف کے سوا تمام وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کراچی کو ہمیشہ بری طرح نظر انداز کیا۔ تحریک انصاف نے کراچی سے بھی کچھ نشستوں پر (بالخصوص عمران خان نے) کامیابی حاصل کی ہے۔ جس پر عارف علوی نے یقین دہانی کرائی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کراچی کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے شہر کے بنیادی مسائل کو فوری طور پر بقیہ مسائل کو بتدریج حل کرے گی۔ سندھ اور کراچی کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں، صرف انہیں دیانتداری، اخلاص اور صلاحیت کے ساتھ استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ تمام لسانی اور علاقائی تعصبات کو چھوڑ کر اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ ملک کی ترقی، کراچی کی ترقی و خوشحالی سے وابستہ ہے۔