ابو قاسم ابراہیم بن علی کہتے ہیں:
’’میں نصیبین (مقام) سے ایک قیمتی تلوار لے کر دیار ربیعہ کے گورنر عباس بن عمرو سلمی کے پاس جانے کے ارادے سے نکلا، جو ’’رأس العین‘‘ میں تھا، تاکہ میں اس کو یہ ہدیہ کروں اور اس سے نفع اٹھاؤں۔ وہ تلوار مجھے اپنے والد سے وراثت میں ملی تھی۔
تو راستے میں ایک دیہاتی بوڑھا میرے ساتھ ہو لیا اور میرے جانے کا مقصد پوچھا تو میں اس سے گھل مل گیا اور اس کو بات بتلا دی۔ ہم ’’رأس العین‘‘ کے قریب پہنچ چکے تھے، سو ہم ’’رأس العین‘‘ میں داخل ہو کر ایک دوسرے سے جدا ہو گئے، اس کے بعد وہ بوڑھا میرے پاس آنے جانے لگا، میرا خیال رکھنے لگا اور مجھ کر جتلانے لگا کہ وہ مجھ کو سلام کرنے آتا ہے، میرے ساتھ نیکی کا ارادہ رکھتا ہے اور میرا حال و احوال پوچھتا ہے۔
میں نے اس بتایا: ’’گورنر نے میرا تحفہ قبول کر لیا ہے اور اس کے بدلے مجھے ایک ہزار درہم اور کچھ کپڑے دیئے ہیں۔ میں فلاں دن واپسی جانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔‘‘
جب وہ دن آیا تو میں شہر سے ایک گدھے پر سوار ہوکر نکل پڑا اور جب میں صحرا میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہی بوڑھا اپنی ایک کمزور سی سواری پر تلوار ڈالے موجود ہے۔
جب میں نے اسے وہاں پر دیکھا تو مجھے اس کے بارے میں شک ہوا کہ یہ کہیں قتل کی نیت سے یہاں پر کھڑا نہ ہو۔
تو میں نے اس سے کہا: ’’تم یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘
کہنے لگا: ’’میں نے اپنا کام پورا کرلیا اور اب میں واپسی جانا چاہتا ہوں اور تمہارے ساتھا جانا میرے نزدیک کسی اور کے بہ نسبت زیادہ پسندیدہ ہے۔‘‘
میں نے کہا: ’’چلو خدا کا نام لے کر۔‘‘
میں مستقل اس سے چوکنا ہی رہا، حالاں کہ وہ کوشش کر رہا تھا کہ میں اس کے قریب آجاؤں اور اس سے گھل مل جاؤں، مگر میں ایسا نہ کرتا۔ وہ جتنا بھی میرے قریب آنے کی کوشش کرتا، میں اتنا ہی اس سے دور بھاگتا رہا، یہاں تک کہ ہم نے بہت سا سفر طے کر لیا اور ہمارے ساتھ کوئی تیسرا نہ تھا۔
چناں چہ وہ مجھ سے مایوس ہوگیا تو میں نے گدھے کو تیزی سے ہانکا، تاکہ میں اس سے بھاگ جاؤں اور اس کے ہاتھ سے نکل جاؤں۔ اتنے میں، میں نے اس کے قدموں کی چاپ سنی۔ سو میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ اپنی تلوار نکال چکا تھا اور مجھے مار دینا چاہتا تھا تو میں نے گدھے سے چھلانگ لگائی اور بھاگ کھڑا ہوا۔
جب اس کو معلوم ہوا کہ میں اس کے ہاتھ سے نکل جاؤں گا تو وہ چیخا: ’’اے ابوالقاسم ! میں تمہارے ساتھ مذاق کررہا تھا، سو تم رک جاؤ‘‘ مگر میں نے اس کی طرف نہیں دیکھا اور بھاگنا اور تیز کر دیا۔
مجھے عیسائیوں کی ایک عبادت گاہ نظر آئی تو میں اس کی طرف چلا۔ سو وہ مجھ کو پکڑنے والا ہی تھا کہ میں فوراً مقبرہ میں داخل ہو گیا اور اس کے دروازے کے پیچھے جا کے کھڑا ہوگیا۔ (اس زمانے میں مقبرہ کا دروازہ ایک بڑا پھتر کا ہوا کرتا تھا اور ہموار کیا ہوا ہوتا تھا کہ ہاتھ اس پر جمتا نہیں تھا)
اور اس کے سامنے ایک حلقہ ہوتا تھا اور اندر سے دروازے کے لیے کوئی چیز نہیں ہوتی، جس پر ہاتھ رکھا جائے، پھر کوئی اسے باہر سے دھکا دیتا تو وہ کھل جاتا اور جب کوئی اس سے باہر نکل جاتا اور حلقہ کھینچتا تو دروازہ بند ہو جاتا اور یہ سب باہر سے کرنا ممکن ہوتا، اندر سے اس کو کھولنا ممکن نہ تھا۔
جب میں قبرستان میں داخل ہوا اور اس کے دروازے کے پیچھے جا کر کھڑا ہوا تو وہ دیہاتی آیا اور اس نے سواری کو دروازے کے حلقہ سے باندھ دیا اور مجھے ڈھونڈتے ہوئے تلوار سونتے اندر داخل ہو گیا۔ قبرستان میں اندھیرا تھا، جس کی وجہ سے وہ مجھے نہیں دیکھ پایا اور چلتا ہوا قبرستان کے بیچ تک آگیا۔ میں نے دروازے کے پیچھے سے نکل کر دروازے کو کھینچا تو جانور بھاگنے لگا اور اس جانور نے بھی میرے ساتھ کھینچا تو دروازے مضبوطی سے بند ہوگیا اور میں نے حلقے کو ایک کنڈی سے باندھ دیا اور جانور کو کھولا اور اس پر سوار ہوکر جانے لگا۔
وہ دیہاتی قبرستان کے دروازے تک آیا اور جب اس نے موت کو اپنے سامنے دیکھا تو کہنے لگا: ’’اے ابوالقاسم! میرے بارے میں خدا سے ڈرو، میں تو مر جاؤں گا۔‘‘
میں نے کہا: ’’تم مرجاؤ یہ میرے نزدیک زیادہ بہتر ہے کہ میں مروں۔‘‘ کہنے لگا: ’’مجھ کو نکال دو، میں تمہیں امان دیتا ہوں اور ایمان کے ساتھ مجھ پر یقین رکھو، میں کبھی تمہارے ساتھ برا سلوک نہیں کروں گا اور ہمارے درمیان جو تعلق تھا اس کو یاد کرو۔‘‘
میں نے کہا: ’’تم نے اس کا خیال پہلے کیوں نہیں کیا اور تمہارے قسم جھوٹی ہے۔ اب میں اپنی موت کے لیے اس قسم پر یقین نہیں کروںگا۔‘‘
وہ بار بار اس بات کو دہرانے لگا۔
میں نے کہا: ’’بار بار اپنی بات کو مت دہراؤ اور اپنی اس بات کو ختم کرو اور اپنی جگہ بیٹھے رہو۔ میں تو تمہاری سواری پر سوار ہوں گا اور اپنا گدھا ساتھ لے کر چلوں گا اور کچھ دن بعد ہم یہیں ملیں گے، لہٰذا تم مجھ پر غصہ مت ہونا، یہاں تک کہ میں آجاؤں اور جب تمہیں کھانا کھانے کی ضرورت پڑے تو تم مردار گدھے کو کھا لینا، کیوں کہ وہ تمہارے لیے بہترین کھانا ہے۔‘‘
میں اس کے ساتھ اس طرح کی باتیں کر کے اس کا مذاق اڑاتا رہا اور وہ روتا اور مدد مانگتا رہا اور آخر میں کہنے لگا: ’’خدا کی قسم! تم نے مجھ کو قتل کردیا۔‘‘
میں نے کہا: ’’تم خدا کی لعنت کے مستحق ہوگئے ہو! اور اس کی سواری پر سوار ہوگیا اور اپنے گدھے کو ساتھ لے کر ہانکنے لگا۔‘‘
اس کا جانور بھورے رنگ کا تھا تو میں نے اس کو لال رنگ کر دیا اور اس کو بیچ دیا، تاکہ اس کے مالک کو پتہ نہ چل جائے۔ اتفاق سے اس کو پیادہ لوگوں میں سے ایک آدمی نے خریدا۔ چناں چہ اس طرح میں نے اس دیہاتی کا کام تمام کر دیا اور اس واقعہ کو چھپائے رکھا۔ سو ایک سال سے کچھ زائد عرصے کے بعد میرا ’’رأس العین‘‘ دوبارہ جانا ہوا۔
چناں چہ میں اسی راستے سے نکلا اور جب میں نے قبرستان دیکھا تو مجھے وہ بوڑھا یاد آیا۔
میں نے کہا: ’’چل کر دیکھتا ہوں کہ اس بوڑھے کا کیا انجام ہوا؟‘‘
میں اس کی طرف گیا تو اس کا دروازہ بالکل ویسے ہی بند تھا جیسا کہ میں چھوڑ کر گیا تھا۔ میں نے اس کو کھولا اور اندر داخل ہو گیا تو وہ بوڑھا بوسیدہ ہڈیاں ہو چکا تھا۔
پھر میں نے اس کو اپنی ٹانگ سے ہلایا اور اس کو مذاقاًً کہا: اے فلاں! تمہارا کیا حال ہے؟ تو اچانک کسی چیز کی آواز آنے لگی، میں اس کو ڈھونڈنے لگا کہ وہ کیا چیز ہے؟ تو وہ ایک تھیلی تھی، چناں چہ میں نے اس کو لے لیا اور اس کی تلوار بھی لے لی اور نکل آیا۔ پھر میں نے تھیلی کھولی تو اس میں پانچ سو دراہم تھے اور اس کے بعد اس کی اس کی تلوار کو بھی چند دراہم میں بیچ دیا۔ (پریشانی سے راحت پانے والے)
Prev Post
Next Post