چوہدری نثار شکست کھا کر گھر تک محدود ہو گئے

0

چوہدری نثار علی خان الیکشن ہارنے کے بعد گھر تک محدود ہوگئے ہیں۔ چوہدری نثار علی خان کو قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 59 میں 66,369 ووٹ ملے جبکہ ان کے مخالف پی ٹی آئی امیدوار غلام سرور خان کو 89,055 ووٹ ملے۔ چوہدری نثار کے ناکام ہونے کا اہم سبب نواز لیگ کے امیدوار قمر الاسلام بنے جن کی الیکشن مہم ان کا 12سالہ بیٹا چلا رہا تھا ۔ قمر الاسلام نے 21,754 ووٹ لئے۔ لیکن ان دونوں کو جمع بھی کردیا جائے تو چوہدری نثار نہیں کامیاب ہوتے۔ ان کے ووٹ تحریک لبیک پاکستان کے امیدوار ملک محمد تاج نے بھی کاٹ لیے تھے جنہوں نے اس حلقے میں 14,320ووٹ حاصل کئے۔ یہ ووٹ حاصل کرنے کے بعد ہی چوہدری نثار کامیاب ہوسکتے تھے۔ جبکہ قومی اسمبلی کے حلقہ 63 میں یہ صورت حال رہی کہ نثار علی خان کو 65,767 ووٹ اور تحریک انصاف کے غلام سرور خان کو 100,986ووٹ ملے۔ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ممتاز خان کو 22,966 اور تحریک لبیک کے امیدوار کو 9,744 ووٹ ملے۔ یہاں بھی چوہدری نثار، نواز لیگ اور تحریک لبیک کے ووٹ مل کر بھی غلام سرور کا مقابلہ نہیںکرسکتے تھے۔ غلام سرور کو ایک نشست چھوڑنا ہوگی اس کے بعد یہاں ضمنی انتخابات ہوں گے۔ اس حوالے سے تحریک انصاف کی جانب سے ایک بار پھر چوہدری نثار علی خان کو پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی گئی ہے۔ لیکن چوہدری نثار نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی شکست کا صدمہ نہیں سہہ سکے ہیں، ان میں اتنی بھی ہمت نہیں ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمان کی طرح دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کریں۔ چوہدری نثار علی خان کی گوشہ نشینی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انتخابات سے پہلے چوہدری نثار علی خان کی کوشش یہ تھی کہ نواز لیگ ان کی منت سماجت کرکے انہیں پارٹی ٹکٹ دے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو ان کی خواہش تھی کہ تحریک انصاف ان کی حمایت کرتے ہوئے اپنے امیدوار غلام سرور خان کو دستبردار کرالے۔ لیکن وہ خود دونوں میں سے کسی کے پاس نہیں جائیں۔ وہ اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ کامیاب ہوکر وہ دونوں میں سے کسی ایک کے ساتھ سودے بازی کریں گے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ چوہدری نثار اپنے ووٹروں کو قائل نہیں کرسکے کہ وہ کس کے ساتھ ہیں نواز لیگ کے ساتھ یا تحریک انصاف کے ساتھ؟ ووٹر کا ذہن واضح تھا اور اس نے واضح فیصلہ کیا۔ چوہدری نثار اس بات کا ادراک کرنے میں ناکام رہے کہ پورے پنڈی ڈویژن میں نواز لیگ کی مخالفت کی ہوا چلی ہوئی ہے اور چوہدری نثار اپنی تقریروں میں یہی وضاحت کرتے رہے کہ انہوںنے نوازشریف سے بے وفائی نہیں کی۔ وہ نواز لیگ پر تنقید بھی کرتے رہے اور تحریک انصاف کے امیدوار کے خلاف بھی بولتے رہے۔ چوہدری نثار علی خان کے حلقے کے ایک باخبر کارکن کا کہنا تھا کہ چوہدری نثار علی خان کے انداز میں رعونت اور اکڑ تھی۔ ان سے رابطہ کرنا نہایت مشکل تھا گنتی کے چند صحافیوں کے ساتھ ہی ان کے روابط تھے۔ ان کے تکبر اور رعونت کا یہ عالم تھا کہ ان کے اپنے کزنز بھی ان کی انتخابی مہم میں شریک نہیں تھے۔ اپنی ساری انتخابی انہوں نے اپنے ڈرائیور اور پرسنل سیکریٹری کے علاوہ اپنے حلقے میں موجود یونین کونسلوں کے چیئرمینوں کی مدد سے لڑنے کی کوشش کی، صرف چند چیئرمینوں نے ان کا ساتھ دیا۔ انہی کے مہیا کردہ لوگ ہر جلسے کے حاضرین ہوا کرتے تھے۔ لیکن چوہدری نثار علی خان کی اکڑ نہیں جارہی تھی۔ چوہدری نثار، نوازشریف کے سحر سے باہر نہیں نکلے تھے لیکن خود جھکنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان یہ پہلی لڑائی نہیں تھی کہ دونوں کے راستے الگ ہو جائیں۔ چوہدری نثار علی خان اور میاں نواز شریف کے درمیان ضیاالحق کے دور میں ’’سیاسی دوستی‘‘ کا آغاز ہوا جس نے گھریلو تعلقات کی شکل اختیار کر لی۔ یہ دوستی 34 سال تک برقرار رہی جو چوہدری نثار علی خان کو پارٹی ٹکٹ نہ دینے پر ختم ہوگئی۔ چوہدری نثار کے ایک قریبی صحافی دوست کا کہنا ہے کہ نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان کئی بار جھگڑے اور ناراضی ہوئی لیکن جب تک میاں شریف زندہ رہے، وہ آڑے آتے رہے۔ کبھی بات نہیں بڑھنے دی۔ چوہدری نثار علی خان میاں نواز شریف کا ’’سیاسی قبلہ‘‘ درست رکھنے کی کوشش کرتے۔ جہاں وہ دیکھتے کہ میاں نواز شریف ان کی بات نہیں مان رہے تو وہ میاں شریف سے جا کر ان کی شکایت لگاتے جس کے بعد میاں شریف، نواز شریف کو وہ بات کرنے کا حکم جاری کرتے جو وہ کرنے سے گریزاں ہوتے۔ اگرچہ چوہدری نثار علی خان کی سب سے پہلے نواز شریف سے دوستی شروع ہوئی جس کی جگہ میاں شہباز شریف نے لے لی۔ چوہدری نثار علی خان اور میاں شہباز شریف کے درمیان دوستی کا ایک نیا دور شروع ہوا اور یہ کہا جانے لگا کہ چوہدری نثار علی خان، نواز شریف سے زیادہ میاں شہباز شریف کے قریب ہیں۔ ان کی میاں شہباز شریف سے دوستی ضرب المثل بن گئی۔ یہ نثار شہباز دوستی ہی ہے کہ چوہدری نثار علی خان نے اپنے حلقہ ہائے انتخاب میں اربوں روپے کے ترقیاتی کام کرائے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں جب بھی میاں نواز شریف اور فوج کے درمیان تنائو کی کیفیت پیدا ہوئی، یہ چوہدری نثار علی خان ہی کی شخصیت تھی جس نے سول ملٹری تعلقات کار کو بہتر بنانے میں اپنے عسکری پس منظر کو بروئے کار لائے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More