قاتل پادری انجام کو پہنچا

0

عبید اللہ بن محمد فرماتے ہیں کہ مجھ کو اہل الجند میں سے ایک آدمی نے بتایا: ’’میں شام کے کسی شہر سے اپنی سواری پر سوار ہو کر نکلا۔ میرے پاس ایک چمڑے کا برتن تھا، اس میں کچھ کپڑے تھے۔ جب میں کچھ میل چلا تو رات ہو گئی۔ مجھے وہاں ایک بڑی عبادت گاہ نظر آئی۔ اس کے پاس جھونپڑی میں ایک راہب بیٹھا ہوا تھا۔‘‘
چنانچہ وہ اترا اور میرا استقبال کیا، مجھے اپنے پاس رات گزارنے کی گزارش کی اور میری مہمان نوازی کرنے کی فرمائش کی، سو میں نے اسے قبول کر لیا۔
پھر جب میں اندر داخل ہوا تو مجھے اس کے علاوہ اور کوئی نظر نہ آیا، پھر وہ میری سواری کو ایک طرف لے گیا، اس کو چارہ ڈال کر ایک کمرے میں باندھ دیا اور میرے لیے گرم پانی لے کر آیا۔ (وہ موسم شدید سردی کا تھا) اور اس نے میرے سامنے آگ جلائی اور راہبوں کے بہترین کھانوں میں سے ایک کھانا لایا تو میں نے کھایا۔
پھر گپ شپ میں رات کا ایک حصہ گزر گیا۔ میں نے سونے کا ارادہ کرتے ہوئے اس سے غسل خانے کا پوچھا۔ اس نے مجھے اس کا راستہ بتایا اور ہم دونوں ایک ہی کمرے میں تھے۔ سو جب میں غسل خانے کے دروازے پر پہنچا تو وہاں ایک چٹائی پڑی ہوئی تھی، میں جیسے ہی اس پر چلا تو گرتے ہوئے نیچے اتر گیا اور اس کے بعد میں نے اپنے آپ کو ایک صحرا میں پایا۔ دراصل وہ چٹائی بغیر کسی چھت کے پڑی ہوئی تھی۔
اس رات شدید برف باری ہو رہی تھی، میں نے سوچا کہ جو کچھ میرے ساتھ ہوا ہے، وہ اس کے علم میں نہیں ہے، سو اس نے مجھ سے بات چیت نہیں کی۔
میں کھڑا ہو گیا اور میرا جسم زخمی ہو چکا تھا، مگر زیادہ چوٹ نہیں لگی تھی۔ سو میں آکر عبادت خانے کے دروازے کے طاق کے نیچے برف سے بچنے کے لیے کھڑا ہو گیا۔ ابھی مجھے کھڑے ہوئے تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ میرے سر کے اوپر کچھ پتھر گرنے لگے، مگر میں بچ گیا، اگر وہ میرے سر پر لگ جاتے تو یقینا اس کو کچل ڈالتے۔
میں بھاگتے ہوئے نکل پڑا اور اس کو آواز لگائی تو اس نے مجھے برا بھلا کہا۔ مجھے پتہ چل گیا کہ یہ سب کچھ وہ کر رہا ہے، میرا زاد سفر حاصل کرنے کے لالچ میں۔ جب میں نکلا تو برف باری ہو رہی تھی، میں نے سوچا کہ اگر یہ برف یونہی میرے اوپر گرتی رہی تو میں مر جائوں گا، پھر مجھے ایک ترکیب آئی، وہ یہ کہ میں ایک تیس رطل کے وزن کا پتھر یا اس سے زیادہ کا اپنے کندھے پر رکھوں، جس سے میں گرم ہو جائوں گا۔
چنانچہ ایک پتھر مجھے مل گیا، پھر کبھی میں اس کو اپنے کندھے پر رکھتا اور کبھی اپنی گدی پر رکھتا اور صحرا میں بھاگ کر چکر کاٹنے لگا۔ یہاں تک کہ میں تھک گیا، گرم ہو گیا اور میرا پسینہ بہنے لگا۔ میں نے پتھر پھینک دیا اور عبادت خانے کے پیچھے ایسی جگہ بیٹھ کر آرام کرنے لگا، جہاں میرا گمان تھا کہ راہب مجھ کو نہ دیکھ سکے گا۔
جب مجھ کو دوبارہ سردی لگنی شروع ہو گئی تو میں نے پھر پتھر اٹھا لیا، عبادت خانے سے باہر نکلا اور صبح تک ایسا ہی کرتا رہا۔
جب سورج طلوع ہونے کا وقت ہوا تو میں عبادت خانے کے پیچھے جاکر کھڑا ہوا، اتنے میں اچانک میں نے دروازے کی آہٹ سنی تو میں چھپ گیا۔ پھر ایک دم سے راہب باہر نکلا اور جہاں میں گرا تھا، وہاں آیا، جب اس نے مجھے نہیں دیکھا تو مجھے ڈھونڈنے کے لیے عبادت خانے کے اردگرد کا چکر لگانے لگا اور وہ یہ کہتا جا رہا تھا:
’’میرا خیال ہے کہ اس نے سوچا ہو گا کہ اس کے قریب میں کوئی گائوں ہے تو وہ اس کی طرف چلا گیا ہو گا۔‘‘ اب میں کیا کروں، اس کا سامان تو میرے ہاتھ سے نکل گیا، وہ چلتے چلتے میرے پیر کے نشان ڈھونڈنے لگا۔
چنانچہ میں اس کی مخالف سمت چلتے ہوئے عبادت خانے کے دروازے تک آگیا اور عبادت خانے کے اندر داخل ہو گیا۔ وہ مجھے عبادت خانے کے اردگرد ڈھونڈتے ہوئے اس جگہ سے جا چکا تھا۔ تو خنجر نکال کر میں عبادت خانے کے دروازے کے پیچھے چلا گیا۔
راہب نے ادھر ادھر بہت چکر لگائے اور جب اس کو میری کوئی خبر نہیں ملی تو وہ واپس آکر عبادت خانے میں داخل ہو گیا، جب وہ دروازہ بند کرنے لگا اور مجھے یہ ڈر ہوا کہ وہ مجھ کو دیکھ لے گا تو میں نے اس پر خنجر سے وار کیا اور اس کو گرا کر ذبح کر دیا۔
میں عبادت خانے کے دروازے کو بند کر کے کمرے کی طرف چلا گیا اور جلتی ہوئی آگ سے سینک کر گرم ہونے لگا، پھر میں نے اپنے چمڑے کے برتن میں سے سوکھے کپڑے نکال کر پہنے اور راہب کی چادر لے کر سو گیا اور عصر تک سوتا رہا۔
عصر کے وقت میں اٹھا، میں نے عبادت خانے کا چکر لگایا تو مجھے کچھ کھانا مل گیا، میں نے اس میں سے کھایا اور میں مطمئن ہو گیا۔
اس کے بعد میرے ہاتھ قلعے کے کمروں کی چابیاں لگیں تو میں نے ایک ایک کمرے کو کھولنا شروع کیا، چنانچہ وہاں نقدی، چاندی، کپڑے اور لوگوں سے چھینا ہوا سازو سامان موجود تھا۔
اس سے پتہ چلا کہ وہ راہب ہر اس آدمی کے ساتھ یہی کرتا تھا کہ جو اس کے پاس سے اکیلا گزرتا تو وہ اس پر قابو پا لیتا۔ سو مجھے سمجھ نہ آیا کہ اس مال کو اور جو کچھ مجھے ملا ہے، کیسے منتقل کروں۔
کچھ دن تک میں وہاں سے گزرنے والوں کو دور سے دکھائی دیتا رہا۔ وہ اس میں شک نہیں کرتے تھے کہ میں وہ پادری نہیں ہوں۔ سو جب وہ میرے قریب ہوتے تو میں ان کو اپنا چہرہ ظاہر نہ کیا کرتا، یہاں تک کہ میری خبر چھپی رہی۔
پھر میں نے وہ کپڑے اتار کر اپنے دوسرے کپڑے پہنے اور کچھ بوریاں لے کر ان کو مال سے بھر لیا اور جانور پر ان کو لاد کر پیدل چل پڑا، اس کو ایک قریبی گائوں تک لے جاکر اس میں ایک گھر کرائے پر لیا۔
مجھے جو بھی چیز ملتی، اس کو ان بوریوں میں منتقل کرتا رہا، یہاں تک کہ میں نے کوئی بھی ایسی چیز جس کی کوئی قیمت ہو نہ چھوڑی، مگر یہ کہ میں نے اس کو گائوں پہنچا دیا۔ پھر میں وہیں مقیم رہا، یہاں تک کہ مجھے ایک قافلہ مل گیا تو میں نے جو کچھ گھر میں پہنچایا تھا، اس کو جانوروں پر لادا اور قافلے میں شریک ہو کر چل پڑا۔
یہاں تک کہ میں اپنے شہر پہنچ گیا اس حال میں کہ مجھے ہزاروں دراہم اور ودینار مل گئے تھے اور میں موت سے بھی بچ گیا تھا۔ (پریشانی کے بعد راحت پانے والے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More