خلاصۂ تفسیر

0

ہاں کیا وہ یہ (بھی) کہتے ہیں کہ انہوں نے اس (قرآن) کو خود گھڑ لیا ہے (سو تحقیقی جواب تو اس کا یہ ہے کہ یہ بات نہیں ہے) بلکہ (یہ بات صرف اس وجہ سے کہتے ہیں کہ) یہ لوگ (بوجہ عناد کے اس کی) تصدیق نہیں کرتے (اور قاعدہ ہے کہ جس چیز کی آدمی تصدیق نہیں کرتا، ہزار وہ حق ہو، مگر اس کی ہمیشہ نفی ہی کیا کرتا ہے اور دوسرا الزامی جواب یہ ہے کہ اچھا اگر یہ ان کا بنایا ہوا ہے) تو یہ لوگ (بھی عربی اور بڑے فصیح و بلیغ اور قادر الکلام ہیں) اس طرح کا کوئی کلام (بنا کر) لے آئیں اگر یہ (اس دعوے میں) سچے ہیں (یہ سب مضامین رسالت کے متعلق ہیں، آگے توحید کے متعلق گفتگو ہے کہ یہ لوگ جو توحید کے منکر ہیں تو) کیا یہ لوگ بغیر کسی خالق کے خود بخود پیدا ہوگئے ہیں یا یہ خود اپنے خالق ہیں یا (یہ کہ نہ اپنے خالق ہیں اور نہ بلا خالق مخلوق ہوئے ہیں لیکن) انہوں نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے (اور خدا تعالیٰ کی صفت خالقیت میں شریک ہیں؟ حاصل یہ کہ جو شخص صفت خالقیت صرف حق تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہونے اور خود اپنے آپ کا بھی محتاج خالق ہونے کا اعتقاد رکھے تو عقلاً اس پر لازم ہے کہ توحید کا بھی قائل ہو، خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ قرار دے اور توحید کا انکار وہ شخص کرسکتا ہے جو صفت خالقیت کو حق تعالیٰ کے ساتھ مخصوص نہ جانے یا اپنی مخلوقیت کا منکر ہو اور چونکہ یہ لوگ اپنے عدم غور و فکر کی وجہ سے یہ نہیں جانتے تھے کہ خالق جب ایک ہے تو معبود بھی ایک ہی ہونا لازم ہے، اس لئے آگے ان کے اس جہل کی طرف اشارہ ہے کہ واقع میں ایسا نہیں) بلکہ یہ لوگ (بوجہ جہل کے توحید کا) یقین نہیں لاتے (وہ جہل یہی ہے کہ اس میں غور نہیں کرتے کہ خالقیت اور معبودیت میں تلازم ہے، یہ گفتگو توحید کے متعلق ہوئی، آگے رسالت کے متعلق ان کے دوسرے مزعومات کا رد ہے، چنانچہ وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ اگر نبوت ہی ملنی تھی تو فلاں فلاں رؤسا مکہ و طائف کو ملتی، حق تعالیٰ اس کا جواب دیتے ہیں کہ) کیا ان لوگوں کے پاس تمہارے رب (کی نعمتوں اور رحمتوں) کے (جن میں نبوت بھی داخل ہے) خزانے ہیں (کہ جس کو چاہو نبوت دے دو) یا یہ لوگ (اس محکمہ نبوت کے) حاکم ہیں (کہ جسے چاہیں نبوت دلوا دیں، یعنی دینے دلانے کی دو صورتیں ہیں، ایک تو یہ کہ مثلاً خزانہ اپنے قبضے میں ہو، دوسری یہ کہ قبضے میں نہ ہو مگر قابضان خزانہ اس کے محکوم ہوں کہ اس کے دستخط دیکھ کر دیتے ہوں، یہاں دونوں کی نفی فرما دی، جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ لوگ جو رسالت محمدیہ کے منکر ہیں اور مکہ و طائف کے رؤسا کو رسالت کا مستحق قرار دیتے ہیں، ان کے پاس اس کی کوئی دلیل عقلی تو ہے نہیں، بلکہ خود اس کے عکس پر دلائل عقلیہ قائم ہیں اور اسی لئے محض استفہام انکاری پر اکتفا فرمایا ، اب آگے دلیل نقلی کی نفی فرماتے ہیں)(جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More