امام غزالیؒ نے ایک زاہد (عبادت گزار) شخص کا عجیب واقعہ نقل کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ایک زاہد شخص جس کا نام زکریا تھا۔ شدید بیمار ہو گیا۔ اس کی موت کا وقت آگیا۔ اس کا ایک مخلص دوست حالت نزع میں اس کے پاس آیا اور اس کو کلمہ طیبہ پڑھنے کی تلقین کی۔ زاہد نے منہ پھیر لیا اور کچھ نہیں پڑھا۔ اس نے دوبارہ تلقین کی اور پھر منہ پھیر لیا۔ جب تیسری بار کہا، اس نے جواب دیا کہ نہیں۔ اس پر اس کے دوست کو شدید رنج و غم ہوا۔
خدا کی شان، تھوڑی دیر بعد زاہد کو افاقہ ہوا تو اس نے آنکھیں کھولیں اور پوچھا کیا تم نے مجھے کچھ کہا تھا؟ اس نے کہا ہاں، ہم نے تجھ پر کلمہ طیبہ تین بار پیش کیا، مگر تو نے دو بار تو منہ پھیر لیا اور تیسری بار کہا، میں نہیں کہوں گا۔
زاہد (عبادت گزار) نے جواب دیا کہ اصل بات یہ ہے کہ میرے پاس شیطان لعین آیا، اس کے پاس پانی کا پیالہ تھا۔ وہ میرے پاس کھڑے ہو کر پیالہ ہلانے لگا اور کہا پانی چاہئے؟ میں نے کہا ہاں۔ اس نے کہا پھر کہو حضرت عیسیٰؑ خدا تعالیٰ کا بیٹا ہے۔ میں نے منہ پھیر لیا۔ پھر وہ پاؤں کی طرف دوبارہ آیا تو میں نے دوبارہ منہ پھیر لیا۔
جب اس نے تیسری بار یہی کہا تو میں نے کہا میں بالکل نہیں کہوں گا۔ اس نے پیالہ زمین پر دے مارا اور بھاگ گیا۔ میں نے خدا کے فضل و کرم سے شیطان کا قول رد کیا تھا۔ تمہارا قول رد نہیں کیا۔ اب میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمدؐ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ (مکاشفۃ القلوب ص 141 حضرت امام محمد غزالیؒ)
مذکورہ واقعہ سے معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ کا اس زاہد پر خصوصی فضل و کرم ہوا کہ اس کو قدرے افاقہ ہوگیا اور اس نے اپنی زبان سے کہہ دیا کہ اصل میں، میں نے شیطان کی باتوں کا انکار کیا تھا نہ کہ کلمہ طیبہ کا، پھر اس نے توحید و رسالت کا خود ہی اقرار بھی کر لیا، اگر خدا نخواستہ وہ نیک بزرگ ہوش میں نہ آتا تو حاضرین کو تو سخت بدگمانی ہوتی کہ خاتمہ بالخیر نہیں ہوا وغیرہ۔ لہٰذا بوقت نزع تلقین کا مفہوم و مطلب یہ ہے کہ مرنے والے کے سامنے کسی قدر بلند آواز سے کلمہ طیبہ دو تین بار خود ہی پڑھا جائے، تاکہ اس کی توجہ اس کلمہ طیبہ کی طرف خود بخود مبذول ہو جائے، اس مرنے والے کا خیال و دھیان ادھر لگ جائے اور مرنے والا اس کو خود ہی اپنی زبان سے پڑھ لے۔
نبی کریمؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ جس کی آخری بات کلمہ طیبہ ہوگی، وہ جنت میں داخل ہوگا۔ (ترمذی شریف)
تلقین کا یہ معنی نہیں کہ مرنے والے کو حکم دیا جائے کہ وہ کلمہ طیبہ یا کلمہ شہادت پڑھے، اس لئے کہ نزع کے وقت میں اس پر سخت تنگی اور تلخی ہوتی ہے۔ اس کے حسب حال یہ بات مناسب نہیں کہ اس کو کلمہ وغیرہ کا حکم دیا جائے۔ کوئی خبر نہیں کہ اس کے منہ سے کیسے الفاظ نکل جائیں اور زندوں کے لئے پوری زندگی پریشانی ہو، بہرحال حق تعالیٰ کا فضل و کرم چاہئے۔
دعا ہے کہ باری تعالیٰ ہم پر شیطان مردود کو اور کسی حاسد انسان کو مسلط نہ کرے اور اپنے رسول کریم خاتم النبیینؐ کے واسطے سے ہمیں ذکر و شکر کی توفیق عطا فرمائے اور خاتمہ ایمان و اسلام پر فرمائے۔ (آمین ثم آمین یا الہ العٰلمین)
Prev Post
Next Post