ہائیڈ پارک
شیراز چوہدری
پنجابی کی کہاوت ہے ’’ملدی نہیں تے چو لو‘‘ یعنی بھینس دودھ تو دیتی نہیں، لیکن کہا جا رہا ہے کہ دودھ دھو لو۔ یہ کہاوت یاد آئی مولانا فضل الرحمن کی پریس کانفرنس دیکھ کر، جس میں ان کے آس پاس اسفندیار ولی، فاروق ستار، مصطفی کمال، محمود اچکزئی، سراج الحق، حاصل بزنجو اور آفتاب شیرپائو وغیرہ نظر آرہے تھے اور وہ یہ اعلان کر رہے تھے کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اسمبلی کا حلف نہیں اٹھائیں گے، جی۔ لوگ تو یہ منظر دیکھ کر ششدر ہی رہ گئے، کیوں کہ مذکورہ تمام رہنما خیر سے پہلے ہی الیکشن میں فارغ ہوگئے ہیں، اب ہارنے والوں کو تو اسمبلی میں حلف کی دعوت نہیں دی جاتی، تو یہ کس حلف سے انکار کی بات کر رہے تھے، اس صورت حال پر کسی نے یہ تبصرہ کیا ہے کہ ’’اگر مولانا شکست کے اثرات سے نکل کر ہوش میں آگئے ہوں تو انہیں بتا دیا جائے کہ حلف وہ اٹھاتے ہیں، جنہیں عوام منتخب کرتے ہیں، آپ کو تو عوام نے مسترد کر دیا ہے۔ لہٰذا جب آپ کو حلف کی ’’زحمت‘‘ سے عوام نے بچا لیا ہے، تو پھر یہ اعلان کرکے کسے بے وقوف بنا رہے ہیں‘‘۔
مولانا اس بار طویل عرصے بعد اسمبلی سے باہر ہوئے ہیں اور اس کے نتیجے میں اقتدار سے بھی۔ شاید اسی لئے انہوں نے پریس کانفرنس میں حلف نہ اٹھانے والا لطیفہ سنایا۔ اس سے ان کی موجودہ ذہنی کیفیت کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔ انہیں پریس کانفرنس میں دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے ان کی زندگی کی متاع کسی نے چھین لی ہو۔ اقتدار سے الگ ہونے کا غم کتنا شدید ہوتا ہے، یہ ان کے چہرے سے نظر آرہا تھا۔ لیکن ختم نبوت شق میں ترمیم پر ان کے ماتھے میں کوئی شکن نمودار نہیں ہوئی تھی اور نہ انہوں نے اس حساس مسئلے پر کوئی اے پی سی بلائی تھی۔ گزشتہ پندرہ برسوں سے وہ وزرا کالونی اسلام آباد کے بنگلے میں مقیم ہیں، پرویز مشرف چلے گئے، مولانا کے گلشن کا کاروبار چلتا رہا، انہوں نے آصف زرداری کے ساتھ اقتدار کی دکان سجالی، وہ گئے تو نواز شریف کو قابو کرکے اپنا کاروبار چلائے رکھا، حالاں کہ نواز شریف نے شروع کے کچھ ماہ میں انہیں ساتھ ملانے سے گریز کیا، لیکن اسلام کے درس دینے والے مولانا نے اس دوران بھی وزرا کالونی کے بنگلے کا قبضہ نہ چھوڑا، انہیں نوٹس بھی دئیے گئے تھے، لیکن وہ ناجائز طور پر مقیم رہے اور بعد میں ’’اسلام زندہ باد‘‘ کے نام پر کانفرنسیں کرکے نواز شریف کو رام کرلیا، اس طرح قبضہ جائز کرلیا۔ اب کی بار بھی وہ اپنی دکان کھلی رکھنے کے لئے سب کچھ کرنے کو تیار تھے، ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے عمران خان کو للچائی ہوئی نظروں میں ساتھ چلنے کا اشارہ بھی دیدیا تھا، لیکن کیا کیا جائے کہ الٹی ہوگئیں سب تدبیریں، کچھ نہ اشاروں نے کام کیا، والا معاملہ ہوگیا، عوام نے ہی تنگ آکر مولانا کو اسمبلی سے باہر کر دیا، ورنہ اقتدار میں آنے والوں پر تو وہ کسی نہ کسی طرح ڈورے ڈال ہی لیتے۔
ویسے اگر کوئی مولانا کو وزرا کالونی والا بنگلہ خالی نہ کرنے کی یقین دہانی کرا دے تو ہو سکتا ہے، وہ حلف نہ اٹھانے والے لطیفے قوم کو سنانا چھوڑ دیں، آپ کو یاد ہوگا کہ پنجاب میں جب خواتین حقوق کے نام پر خواتین کو مغرب طرز کی آزادیاں دینے، خاندانی نظام توڑنے والا قانون بنایا گیا تھا،تو عوام نے شدید ردعمل کا اظہار کیا تھا، اس موقع پر مذہبی جماعتوں کی ایک کانفرنس ہوئی، جس میں مولانا کو سربراہ بنایا گیا، انہوں نے ایک عدد ایسا ہی الٹی میٹم وہ قانون واپس لینے کے لئے دیا تھا، جیسا انہوں نے حلف نہ اٹھانے والا دیا ہے اور پھر بعد میں مولانا کی شہباز شریف سے دو تین ملاقاتیں ہوئیں، ساری مذہبی جماعتوں کا وزن ان کے ساتھ تھا، اس وزن کو انہوں نے کس ترازو میں رکھا، کون سے باٹ کام آئے، اس کا آج تک کسی کو علم نہیں ہو سکا۔ سو مولانا کے ساتھ کھڑے ہوئے ناکام کلب کے ارکان یاد رکھیں کہ ان کے ساتھ بھی زیادہ سے زیادہ یہی ہوسکتا ہے، مولانا کی زیر قیادت وہ اس سے زیادہ کی امید نہ رکھیں۔ اب مولانا انہیں اسمبلی کا حلف تو دلانے سے رہے۔
خیبر پختون کے عوام کو بہت باشعور کہا جاتا ہے، انہوں نے اس الیکشن میں بھی یہ سچ ثابت کر دیا ہے، سارے پرانے سیاسی بت گرادیئے ہیں اور انہیں بالواسطہ پیغام دے دیا ہے کہ اب وہ عزت سے سیاست سے ریٹائرمنٹ لے لیں، صوبے کے عوام کو اب وہ قبول نہیں، اسفند یار ولی تو گزشتہ الیکشن میں بھی ہارے تھے، ان کے والد نے تو ہارنے پر آئندہ الیکشن نہ لڑنے کا اعلان کر دیا تھا اور اس پر آخری دن تک عمل بھی کیا، لیکن اسفند یار دوسری بار بری طرح شکست کھانے کے بعد بھی مولانا کے پیچھے ہاتھ باندھ کر ان کے ہمراہ قوم کو حلف نہ اٹھانے والے لطیفے سنا رہے ہیں، ان سے اچھے تو کراچی کی جماعت مہاجر قومی موومنٹ حقیقی کے سربراہ آفاق احمد رہے، جنہوں نے الیکشن میں شکست کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے قیادت سے استعفیٰ دے دیا۔