خلاصۂ تفسیر
کیا ان لوگوں کے پاس کوئی سیڑھی ہے کہ اس پر (چڑھ کر آسمان کی) باتیں سن لیا کرتے ہیں (یعنی دلیل نقلی وحی آسمانی ہے اور اس کے علم کے دو طریقے ہیں یا تو وحی کسی شخص پر آسمان سے نازل ہو یا صاحب وحی آسمان پر چڑھے اور دونوں کا منتفی ہونا ان لوگوں سے ظاہر ہے، آگے اس کے متعلق ایک احتمال عقلی کا ابطال فرماتے ہیں کہ اگر فرضًا یہ لوگ یہ دعویٰ کرنے لگیں کہ ہم آسمان پر چڑھ جاتے اور وہاں کی باتیں سنتے ہیں) تو ان میں جو (وہاں کی) باتیں سن آتا ہو وہ (اس دعویٰ پر) کوئی صاف دلیل پیش کرے (جس سے ثابت ہو کہ یہ شخص مشرف بہ وحی ہوا ہے، جیسا ہمارے نبی اپنی وحی پر دلائل خارقہ یقینیہ رکھتے ہیں، آگے پھر توحید کے بارے میں ایک خاص مضمون کے متعلق کلام ہے، یعنی منکرین توحید جو فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دے کر شرک کرتے ہیں، تو ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ) کیا خدا کے لئے بیٹیاں (تجویز کی جاویں) اور تمہارے لئے بیٹے (تجویز ہوں، یعنی اپنے لئے تو وہ چیز پسند کرتے ہو، جس کو اعلیٰ درجے کی سمجھتے ہو اور خدا کے لئے وہ چیز تجویز کرتے ہو، جس کو ادنیٰ درجے کی سمجھتے ہو، جس کا بیان سورئہ صافات کے آخر میں مفصل مدلل گزرا ہے، آگے پھر رسالت کے متعلق کلام ہے کہ ان کو جو باوجود آپ کی حقانیت ثابت ہو جانے کے آپ کا اتباع اس قدر ناگوار ہے تو) کیا آپ ان سے کچھ معاوضہ (تبلیغ احکام کا) مانگتے ہیں کہ وہ تاوان ان کو گراں معلوم ہوتا ہے (آگے قیامت اور جزاء کے متعلق کلام ہے کہ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ اول تو قیامت ہوگی نہیں اور اگر بالفرض ہوگی تو ہم وہاں بھی اچھے رہیں گے، تو ہم اس کے متعلق ان سے پوچھتے ہیں کہ) کیا ان کے پاس غیب (کا علم) ہے کہ یہ (اس کو محفوظ رکھنے کے واسطے) لکھ لیا کرتے ہیں (یہ احقر کے نزدیک کنایہ ہے یحفظون سے، کیونکہ کتابت طریقہ ہے حفظ کا، پس حاصل یہ ہوا کہ جس امر پر اثباتاً یا نفیاً کوئی دلیل عقلی قائم نہ ہو، وہ غیب محض ہے، اس کا دعویٰ اثباتاً یا نفیاً وہ کرے، جس کو کسی واسطے سے اس غیب پر مطلع کیا جاوے اور پھر مطلع ہونے کے بعد وہ اس کو محفوظ بھی رکھے، اس لئے کہ اگر معلوم ہونے کے بعد محفوظ نہ ہو تب بھی حکم اور دعویٰ بلا علم ہوگا، پس تم جو قیامت کی نفی اور اپنے لئے حسنیٰ کے قائل ہو تو کیا تم کو غیب پر کسی واسطے سے اطلاع دی گئی ہے جیسا کہ ہمارے نبیؐ کو اثبات قیامت اور تم سے اچھی حالت کی نفی کی خبر غیبی وحی دی گئی ہے اور وہ اس کو محفوظ رکھ کر اوروں کو پہنچا رہے ہیں، آگے رسالت کے متعلق ایک اور کلام ہے) (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post