حضرت رابعہ بصریہ کے واقعات

0

حضرت صالح عامریؒ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ جو کوئی کسی کے دروازے کو کھٹکھٹاتا ہے، کبھی نہ کبھی دروازہ اس پر کشادہ ہو ہی جاتا ہے۔ ایک بار حضرت رابعہ بصریؒ بھی وہاں موجود تھیں، یہ سن کر فرمانے لگیں: یہ کب تک کہو گے کہ کھلے گا، پہلے یہ بتاؤ کہ بند کب ہے، جو آئندہ کھلے گا۔ یہ سن کر حضرت صالحؒ نے آپ کی دانائی کی تعریف کی اور اپنی نادانی پر افسوس کیا۔ ایک بار سیدہ رابعہؒ نے ایک شخص کو ہائے غم، ہائے غم کہتے دیکھا۔ آپ نے فرمایا ہائے غم، ہائے غم نہ کہہ بلکہ ہائے بے غمی، ہائے بے غمی پکار، کیونکہ غم کا خاصا ہے کہ جس کے پاس یہ ہوتا ہے اس سے سانس تک تولی نہیں جاتی، بات کرنا تو امر محال ہے۔
ایک شخص کو آپ نے سر پر پٹی باندھے دیکھا۔ اس سے پوچھا کہ پٹی تو نے کیوں باندھی ہے؟ اس نے کہا کہ میرے سر میں درد ہے۔ آپ نے پوچھا تیری عمر کیا ہوگی؟ اس نے کہا تیس برس کا ہوں۔ آپ نے پوچھا کہ اتنے زمانے تک تو بیمار رہا یا تندرست؟ اس نے کہا تندرست رہا۔ آپ نے فرمایا افسوس ہے تیس برس تک تو تندرست رہا اور اس کے شکریے میں کبھی تو نے پٹی نہ باندھی اور ایک دن بیماری میں شکایت کی پٹی باندھے ہوئے ہے۔
آپ گوشہ نشین تھیں اور بہار کا موسم تھا، آپ کی خادمہ نے کہا، ذرا باہر تشریف لاکر صانع کی صنعت ملاحظہ فرمایئے کہ اس نے کیا کیا صناعی کی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تو بھی گوشہ نشینی اختیار کر، تاکہ خود صانع تجھے دکھائی دے۔ میرا کام صانع کا دیکھنا ہے، میں صنعت دیکھ کر کیا کروں گی۔ ایک بار آپ نے سات شبانہ روزہ رکھا اور شب کو مطلق استراحت نہ فرمائی۔ آٹھویں دن بھوک نے غلبہ کیا اور نفس فریاد کر کے کہنے لگا کہ کب تک آپ مجھ کو رنج اور تکلیف میں رکھیں گی۔ اسی وقت ایک شخص آیا اور ایک پیالہ، جس میں کوئی چیز کھانے کی تھی، آپ کو دیا، آپ نے لے رکھ لیا اور چراغ جلانے کو اٹھیں، اتنے میں بلی آئی اور اس نے پیالے کو الٹ دیا، آپ نے خیال کیا کہ پانی سے روزہ کھول لوں گی، آبخورے میں پانی بھر کر لائیں تو چراغ گل ہوگیا، آپ نے پانی پینے کا ارادہ کیا، آبخورہ ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گیا۔ آپ نے ایک آہ بھرکر درگاہ رب العزت میں کہا کہ خدایا! یہ کیا ہے؟ جو تو میرے ساتھ کرتا ہے۔
غیبی آواز سنائی دی کہ اے رابعہ! اگر تم نعمت دنیا کی طالب ہو، ہم دینے کو تیار ہیں، لیکن اپنا غم تمہارے دل سے نکال دیں گے، اس لئے کہ ہمارا غم اور نعمت دنیا دونوں کا گزر ایک دل میں محال ہے۔ اے رابعہ تمہاری بھی ایک مراد ہے اور ہماری بھی ایک مراد ہے۔ لیکن ہماری اور تمہاری، دونوں مرادیں جمع نہیں ہو سکتیں۔ یہ ندا سن کر آپ اپنے دل کو دنیا سے جدا کیا اور امید کو کوتاہ کیا، اس طرح جیسے کوئی مرنے والا نزع کے وقت امید کو ترک کرتا ہے اور دل کو دنیا کی باتوں سے الگ کرتا ہے اور اس قدر دنیا سے الگ ہوگئیں کہ ہر صبح کو دعا فرماتی کہ پروردگار! تو مجھے اپنی طرف مشغول کر لے، تاکہ اہل دنیا مجھے اور کسی کام میں مشغول نہ کر سکیں۔
سیدہ رابعہ بصریہؒ نے فرمایا صرف زبان سے استغفار کرنا جھوٹوں کا کام ہے اور اگر خود بینی کے ساتھ ہم توبہ کریں تو دوسری توبہ کی محتاجی باقی رہ جاتی ہے اور فرمایا کہ ثمرئہ معرفت خدا کی طرف متوجہ ہونا ہے، پہچان عارف کی یہ ہے خدا سے پاک صاف دل طلب کرے، جب خدا اس کو دل دے تو اسے فوراً خدا کے سپرد کر دے تاکہ اس کے قبضے میں حفاظت سے رہے اور اس کے پردے میں تمام لوگوں سے پوشیدہ رہے۔
آپ ہمیشہ رویا کرتی تھیں۔ لوگوں نے کہا بظاہر آپ کو کوئی بیماری معلوم نہیں ہوتی پھر کیا سبب ہے جو آپ اس طرح رویا کرتی ہیں؟ آپ نے فرمایا: تم لوگوں کو معلوم نہیں میرے سینے کے اندر ایسی بیماری ہے جس کا علاج کوئی طبیب نہیں کر سکتا اور اس مرض کی دوا وصال الٰہی ہے، اسی وجہ سے میں روتی ہوں اور اپنی صورت درد مندوں کی مثل بنائے رکھتی ہوں، شاید قیامت میں اسی ذریعے میری آرزو پوری ہو جائے۔
چند بزرگ آپ کے پاس آئے۔ آپ نے ان سے کہا کہ تم لوگ بیان کرو کہ خدا کی پرستش کیوں کرتے ہو۔ ایک نے کہا کہ ہم دوزخ کے طبقوں سے ڈرتے ہیں اور اسی پر سے قیامت میں گزرنا ہوگا۔ اس کے خوف کی وجہ سے ہم خدا کی پرستش کرتے ہیں تاکہ دوزخ سے محفوظ رہیں۔ دوسرے نے کہا ہم بہشت کی آرزو کی وجہ سے خدا کی پرستش کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ وہ بندہ برا ہے جو خدا کی پرستش خوف دوزخ یا امید جنت کی وجہ سے کرے۔ ان بزرگوں نے کہا کہ آپ کو خدا سے امید یا خوف نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ خدا کی عبادت فرض عین ہے پھر فرمایا اگر خدا بہشت اور دوزخ نہ پیدا کرتا تو کیا اس کے بندے اس کی عبادت نہ کرتے؟ خدا کی پرستش بے واسطہ کرنا چاہیے۔ (جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More