لیفٹیننٹ کرنل (ر) عادل اختر
یہ جولائی 1497 کا زمانہ ہے اور ملک ہے پرتگال۔ پرتگال کے ملاحوں کو ہندوستان پہنچنے کا بڑا اشتیاق تھا۔ بادشاہ کی مدد اور عوام کی پرجوش حمایت سے چار بحری جہاز ہندوستان کے سفر پر روانہ ہوئے۔ ملاحوں کی تعداد 170 تھی اور ان کے کیپٹن کا نام واسکوڈی گاما تھا۔ یہ بہت بڑی مہم Adventure تھی۔ یہ بات عین ممکن تھی کہ کوئی بھی واپس نہ آئے۔ سارے جہاز طوفان میں ڈوب جائیں یا ملاح کسی وبا میں مرجائیں۔ یہ بحری بیڑہ دس ماہ تک چلتا رہا اور آخر ایک دن جنوبی بھارت کی بندرگاہ کالی کٹ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ دنیا کی تاریخ بدل گئی۔ واسکوڈی گاما افریقہ کے جنوب تک آسانی سے پہنچ گیا تھا، وہاں اسے ایک مسلمان ملاح مل گیا۔ جو اسے ہندوستان کے ساحلوں تک لے گیا۔ یہ سفر مئی 1498ء کو تمام ہوا۔ بارہ ہزار میل کا فاصلہ دس ماہ میں طے ہوا۔ دستور کے مطابق واسکوڈی گاما وہاں کے مقامی راجہ کے محل میں حاضر ہوا۔ لیکن راجہ کو اس کے دیئے ہوئے تحفے پسند نہ آئے۔ ہندوستانیوں نے اس کے بحری بیڑے پر حملہ کر دیا۔ اس وقت پرتگالی توپیں بہت کام آئیں اور ہندوستانی ان کی بمباری سے خوف زدہ ہوگئے۔ واسکوڈی گاما یہاں تین ماہ ٹھہرا۔ کثیر مقدار میں گرم مسالے حاصل کئے اور واپسی کا سفر اختیار کیا۔ واپسی پر اس کا پر جوش استقبال ہوا۔ واپسی جولائی 1499ء میں ہوئی، یعنی آنے جانے میں دو سال لگے۔ 170 میں سے 116 آدمی سفر میں مر گئے تھے اور صرف 54 پرتگالی واپس آئے۔
اگلے سال 13 جہازوں پر مشتمل ایک نیا بحری بیڑا روانہ ہوا۔ اس کے پاس زیادہ توپیں تھیں اور اس کے عزائم خطرناک تھے۔ انہوں نے راستے میں بہت جہاز لوٹے اور جہازیوں کو قتل کیا اور بہت سی زمین پر قبضہ کیا۔ راجہ ڈر گئے۔ جہاز گرم مسالوں سے لد گئے۔ پرتگالی خوش خوش واپس آئے۔ اس سفر کے دوران حاجیوں کا ایک جہاز سامنے آگیا۔ جس پر چار سو حاجی سوار تھے۔ اس جہاز کے مسافروں کو باندھ کر جہاز کو آگ لگا دی۔ عورتین رحم کی بھیک مانگتی رہیں۔ پرتگالی اپنے جہاز سے اس ظلم اور سفاکی کے منظر دیکھتے رہے۔ مگر ان ظالموں کو ان پر ذرا بھی ترس نہیں آیا۔
اس واقعے کے بعد پرتگالیوں کا حوصلہ بڑھتا رہا۔ انہوں نے ہندوستان کے بہت سے علاقوں میں اپنی حکومت قائم کرلی۔ اپنے گورنر مقرر کر دیئے، لیکن ان کی دیکھا دیکھی کچھ عرصے میں ڈچ، فرانسیسی اور انگریز بحری بیڑے بھی ہندوستان آنے جانے لگے اور تینوں میں آپس میں لڑائیاں ہونے لگیں۔ اس دوران ایک بڑا واقعہ ہو چکا تھا۔ یعنی امریکا دریافت ہو چکا تھا، اب بحری بیڑے، امریکہ، پرتگال اور ہندوستان کے ساحلوں پر لنگر انداز ہوا کرتے۔ ایک علاقے کی چیزیں دوسرے علاقے میں پہنچنے لگیں۔ ہندوستان آنے والی چیزوں میں، مکئی، آلو، ٹماٹر، مرچ اور کاجو شامل تھے۔ ہندوستان سے جانے والی چیزوں میں گرم مسالے، ادرک، الائچی، لونگ، کپڑا شامل تھے۔ ان کے علاوہ یورپ سے شراب، اون اور سونا بھی آتے۔ ہندوستانی راجہ اور امرا، یورپی شراب کے بہت شائق تھے، کیونکہ وہ ہندوستانی شراب سے بہتر تھی۔ یورپی توپیں بھی بہتر تھیں۔ بندوقیں بھی اچھی تھیں۔ ان کے فوجیوں میں ڈسپلن اور حوصلہ مندی زیادہ تھی۔ پرتگالی زبان کا اثر ہندوستان کی تمام زبانوں پر پڑا اور سینکڑوں پرتگالی الفاظ ہندوستانی زبانوں میں استعمال ہونے لگے۔
1757ء میں ایک حوصلہ مند انگریز لارڈ کلایو CLIVE نے بنگال کے نواب سراج الدولہ کو کلکتہ کے قریب پلاسی کے میدان میں شکست دی اور آہستہ آہستہ پرتگالیوں، فرانسیسیوں اور ڈچوں کو مار بھگایا۔ انگریزوں کی حکمت عملی سب پر غالب آئی اور ایک دن انگلینڈ کی ملکہ قیصرہ ہند قرار پائی۔ انگریزوں نے ہندوستان کو لوٹا بھی بہت۔ مگر اتنا نہیں لوٹا جتنا اپنوں نے اپنوں کو لوٹا ہے۔ لندن آج بھی ہمارا دارالحکومت ہے۔ ہم آج بھی لٹ رہے ہیں۔