حضرت ابن مبارکؒ فرماتے ہیں کہ جب میں اس بڑھیا کو لے کر تھوڑی دور چلا تو میں نے اس سے کہا کہ کیا آپ کا خاوند زندہ ہے؟
بڑھیا نے اس پر بھی قرآنی آیت پڑھ کر جواب دیا:
ترجمہ: ’’اے ایمان والو! ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار گزریں‘‘۔ (القرآن)
حضرت ابن مبارکؒ فرماتے ہیں کہ پھر میں نے اس سے بات نہیں کی، یہاں تک کہ ہم قافلے تک پہنچ گئے تو میں نے اس سے کہا کہ یہ رہا آپ کا قافلہ، اس میں آپ کا تعلق دار کون ہے؟
بڑھیا نے اس کا جواب بھی قرآنی آیت کے ذریعے سے دیا اور کہا:
ترجمہ: ’’مال اور اولاد دنیوی زندگی کی رونق ہیں‘‘۔ (القرآن)
حضرت ابن مبارکؒ: میں سمجھ گیا کہ اس کی اولاد اس قافلے میں ہے تو میں نے پوچھا کہ وہ قافلے میں کیا سر انجام دیتے ہیں؟
اس عاشق قرآن بڑھیا نے جواب میں قرآن کی یہ آیت پڑھی:
ترجمہ: ’’علامتیں بھی بنائیں اور ستاروں سے بھی لوگ ہدایت پاتے ہیں‘‘۔ (القرآن)
حضرت ابن مبارکؒ: تو میں سمجھ گیا کہ اس کے لڑکے قافلے کے رہبر ہیں۔ میں اس کو لے کر لوگوں کے خیموں تک پہنچ گیا اور کہا کہ یہاں لوگ مجتمع ہیں۔ آپ کا ان میں کون ہے؟ (آپ کے بیٹوں کے نام کیا ہیں؟)
بڑھیا نے قرآن کی یہ آیات پڑھیں:
ترجمہ: ’’اور خدا نے تو ابراہیم کو اپنا دوست بنا لیا‘‘۔
ترجمہ: ’’اور خدا نے موسیٰ سے خاص طور پر کلام فرمایا۔‘‘
ترجمہ: ’’اے یحییٰ! کتاب کو مضبوط پکڑو‘‘۔
حضرت ابن مبارکؒ: میں نے ان چاند جیسے نوجوانوں کو ان کے نام لے کر پکارا کہ اے ابراہیم، اے موسیٰ، اے یحییٰ! تو وہ ہمارے پاس آئے۔
ابھی میں تھوڑی دیر ہی ٹھہرا تھا کہ اس بڑھیا نے سورۃ الکہف کی یہ آیت پڑھی:
ترجمہ: ’’اپنے میں سے کسی ایک کو یہ روپیہ دے کر شہر کی طرف بھیجو سو وہ تحقیق کرے کہ کون سا کھانا پاکیزہ ہے پھر اس میں سے کچھ کھانا تمہارے پاس لے آئے‘‘۔
حضرت ابن مبارکؒ: پھر ان میں سے ایک کھانا لے کر آیا اور میرے سامنے رکھ دیا۔
اس کے بعد بڑھیا نے یہ آیت پڑھ کر مجھ سے کھانا کھانے کا کہا:
ترجمہ: ’’کھاؤ اور پیومزے کے ساتھ ان اعمال کے بدلے میں جو تم گزشتہ ایام میں کرچکے ہو‘‘۔
کھانا سامنے رکھنے کے بعد حضرت ابن مبارکؒ نے فرمایا کہ میں تمہارے اس کھانے کو ہر گز نہیں کھاؤں گا جب تک تم مجھ کو اس سارے معاملے کی صحیح صحیح اطلاع نہ دو۔
اس پر اس خاتون کی اولاد نے راز کھولا اور کہنے لگے کہ: یہ ہماری والدہ ہیں اور ان کو چالیس سال ہوچکے ہیں کہ کبھی قرآن کے علاوہ بات نہیں کرتیں۔ اس بات کا خوف کرتے ہوئے کہ کبھی کوئی بات منہ سے ایسی نہ نکل جائے، جس کی وجہ سے حق تعالیٰ ناراض ہوجائے۔ پس وہ پاک ذات ہر چیز پر قادر ہے۔
حضرت ابن مبارک ؒ نے بھی یہ بات سن کر قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت فرمائی:
ترجمہ: ’’یہ خدا تعالیٰ کا عطا کردہ فضل ہے، جس کو چاہتے ہیں وہ عطا کرتے ہیں اور وہ بڑے فضل والے ہیں‘‘۔
(جاری ہے)
Prev Post
Next Post