مسعود ابدالی
[email protected]
آج کل سارے ہی یورپ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی ایک مہم جاری ہے۔ مساجد پر حملے، بچیوں کے سر سے اسکارف نوچنا، برقعہ پوش خواتین پر آوازے کسنا اور دہشت گردی کے الزام میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاری ہر جگہ عام ہے۔ یونان میں ایک عرصے سے مسلمانوں کے خلاف تعصب کی ایک لہر آئی ہوئی ہے، جس کی بڑی وجہ ترکی سے حسد ہے، یعنی مسلمان پڑوسی تیزی سے ترقی کر رہا ہے، جبکہ یونان کی معاشی حالت انتہائی ابتر ہے۔ یونان کے ساحلی علاقوں میں کئی دہائیوں سے مصری و افریقی نژاد ماہی گیر آباد ہیں۔ مصری ماہی گیر بے حد محنتی ہیں اور اس وجہ سے نسبتاً زیادہ خوشحال ہیں۔ یونان کی ایک سیاسی جماعت گولڈن ڈان پارٹی نے ان کے خلاف زبردست مہم چلا رکھی ہے۔ پارٹی کے رہنما نکولس مشالیسکوس (Michaloliaskos Nikolaous) کی قیادت میں کئی بار مصری مچھیروں کی بستیوں پر حملے بھی ہو چکے ہیں۔
کل دارالحکومت ایتھنز سے 18 میل مشرق میں واقع ایک پرتعیش ساحلی گائوں ماتی (Mati) میں خوفناک آگ بھڑک اٹھی۔ اس وقت یہ گائوں سیاحوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس کے ساحلوں پر بلند و بالا ہوٹل، میکدے اور جوئے خانے ہیں۔ ایک اپارٹمنٹ بلڈنگ کچھ اس تیزی سے آگ کی لپیٹ میں آئی کہ وہاں رینے والوں کو بھاگنے کا موقع بھی نہ مل سکا۔ شام کا وقت تھا اور سورج غروب ہو رہا تھا۔ عمارت میں مقیم لوگ جان بچانے کیلئے سمندر کی طرف کھلنے والی کھڑکیوں سے لٹکنے لگے۔ عمارت میں 150 افراد پھنسے ہوئے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر ایک 46 سالہ مصری مچھیرے محمود السید موسیٰ کی قیادت میں ماہی گیر اپنی کشتیاں لے کر اس عمارت کے پاس پہنچ گئے۔ ساری عمارت شعلوں میں گھری ہوئی تھی۔ اگر کھڑکی سے لٹکتے لوگ چھلانگ لگا دیتے تو کسی کے بچنے کا امکان نہ تھا۔ ان ماہی گیروں نے رسے سے ایک کمند بنائی اور اسے اوپر کی طرف اچھال دیا۔ اتفاق سے وہاں موجود ایک شخص نے ہمت کرکے ہک کو ایک کھڑکی سے پھنسا دیا۔ ایسی دو تین کمندیں پھینکی گئیں اور مصری مچھیروں نے ان رسوں سے اوپر جا کر 23 افراد اور کئی کتوں کو بچا لیا۔ اسی دوران فائر بریگیڈ کا عملہ اور امدادی ہیلی کاپٹر وہاں پہنچ گئے اور خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہ ہوا، حالانکہ پوری عمارت زمیں بوس ہوگئی۔ امدادی عملے کو اس بات پر تعجب ہے کہ سیڑھیوں کے بغیر محض رسوں کی مدد سے کسی کو زخمی کئے بغیر ان مچھیروں نے دو درجن افراد کو کیسے بچالیا۔ شعلوں سے گھری عمارت میں داخل ہوکر گھپ اندھیرے اور دم گھٹتے دھویں میں کمروں سے لوگوں کو نکالنا انتہائی خطرے کا کام تھا، لیکن ان ’’مسلم دہشت گردوں‘‘ نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا، جنہیں نسل پرست یونانی سیاست دان ملک کے تمام مسائل کی جڑ گردانتے ہیں۔
’’جس نے ایک انسان کی بھی جان بچائی، اس نے گویا ساری انسانیت کو زندگی بخش دی۔‘‘ (القرآن)
٭٭٭٭٭