حضرتشیخ فرید الدینؒ عطاری کی دکان کیا کرتے تھے۔ ایک دن اپنی دکان پر بیٹھے نسخے (ادویات کی پڑیاں) باندھ رہے تھے۔ ایک درویش کمبل پوش دکان کے آگے کھڑے ہو کر انہیں تکنے لگا۔ دیر تک اسی حالت میں دیکھ کر حضرت عطارؒ نے فرمایا کہ بھائی جو کچھ لینا ہے، لے لو، کھڑے کیا دیکھ رہے ہو۔ (جیسا بعض دکانداروں کی عادت ہوتی ہے)
درویش نے کہا میں دیکھا رہا ہوں کہ تمہاری دکان میں شربت، خمیرے، معجونیں اور بہت سی چپکتی ہوئی دوسری چیزیں بھری پڑی ہیں۔ میں یہ سوچ رہا ہوں کہ آخر مرتے وقت تمہاری روح کیسے نکلے گی۔ جو اتنی چپکتی ہوئی چیزوں میں پھنسی ہوئی ہے۔
اس وقت حضرت عطارؒ کو باطن کی کچھ خبر اور توجہ نہ تھی۔ بے دھڑک کہہ بیٹھے کہ جیسے تمہاری جان نکل جائے گی، ویسے ہی ہماری بھی نکل جائے گی۔ درویش نے کہا کہ میاں ہمارا کیا ہے اور وہ کمبل اوڑھ کر وہیں دکان کے سامنے لیٹ گئے، اول تو حضرت عطارؒ نے سمجھا کہ مذاق کر رہا ہے، لیکن جب دیر ہوگئی تو شبہ ہوا، پاس جا کر کمبل اٹھایا تو وہ درویش واقعی رب تعالیٰ کو پیارے ہو چکے تھے۔ پس حضرت شیخ کے دل پر ایک چوٹ لگی اور وہیں ایک چیخ ماری اور بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ افاقہ ہوا تو دیکھا کہ دل دنیا فانی سے بالکل سرد ہو چکا ہے۔ (لاکھوں انسانوں میں سے کسی ایک خوش نصیب پر یہ کیفیت طاری ہوتی ہے)
اسی وقت دکان غرباء میں تقسیم فرما کر پیر و مرشد کی تلاش میں نکلے، پھر تو حق تعالیٰ جل شانہ نے وہ مقام عطا فرمایا کہ عظیم عارف اور ولی بن گئے۔
شیخ ابراہیم بن ادہمؒ ایک روز دریا کے کنارے (یہ دریا بلخ کے کنارے دریائے آمو یا جیحون تھا) بیٹھے اپنی گدڑی سی رہے تھے کہ اچانک بلخ کا ایک وزیر (جو پہلے آپ کے ماتحت تھا) اس راہ سے گزرا، وزیر نے اپنے بادشاہ سلامت کو اس غربت میں اپنی گدڑی سیتے ہوئے جب دیکھا تو تڑپ اٹھا اور دل میں سوچا کہ انہوں نے بادشاہی اور ملک ضائع کر کے گدڑی سینا شروع کر دیا ہے۔ ایسی عالی شان سلطنت و حکومت پر اس حالت کو ترجیح دی ہے، نہ معلوم یہ کون سی عقل مندی ہے۔ حق تعالیٰ نے اس وزیر کے اس خیال کو حضرت پر منکشف (ظاہر) فرما دیا، پس حضرت نے اپنی سوئی دریا میں پھینک دی اور حکم دیا کہ اے دریا کی مچھلیو! میری سوئی واپس لائو، وزیر حیران تھا کہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔
آپؒ کا حکم سننا تھا کہ کئی سو ہزار مچھلیاں سونے کی ایک ایک سوئی اپنے لبوں میں دبائے ہوئے دریا کے کنارے حاضر ہو کر عرض کرنے لگیں کہ حضرت سوئی حاضر ہے۔ حضرت نے عرض کہ میں وہی اپنی سوئی چاہتا ہوں۔ پس ایک مچھلی وہ خاص سوئی، جس کو شیخ نے دریا میں پھینکا تھا لے کر حاضر خدمت ہوئی۔ اس وقت حضرت نے اس وزیر سے فرمایا، دل کی حکومت و سلطنت بہتر ہے یا ملک حقیر کی۔
وزیر کا اتنا سننا تھا کہ اس نے ایک آہ کھینچی اور کہا افسوس کہ مچھلیاں تو اس ولی کو پہچانتی ہیں اور میں ناچیز اس شیخ کامل اور قطب زماں سے بے خبر ہوں، میں انسان ہو کر بدبخت ہوں اور یہ مچھلیاں اس دولت معرفت کے سبب مجھ سے سعید و خوش نصیب ہیں۔ پس وزیر نے اس شاہ دین شیخ بلخ کے سامنے سراپا ادب بن کر مؤدبانہ سلام عرض کیا اور روتا ہوا دولت عشق حقیقی سے بہرہ ور اور خوش قسمت و کامیاب ہو کر واپس ہوا۔ (معرفت الٰہیہ ص 219 تا 222)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post