شولوخوف نے اپنے شہرئہ آفاق ناول ’’اور ڈان بہتا رہا‘‘ کی ابتدا اس قدیم کوساک نغمے سے کی تھی، جو غم اور فخر کا سنگم ہے۔ اس نغمے میں بتایا گیا ہے کہ:
’’ہماری خشک دھرتی پر
بیلوں والے ہل نہیں
سرکش گھوڑوں کے سم چلے ہیں
ہمارے دریائے ڈان کی لہریں
بیواؤں کی وجہ سے حسین ہیں
ہمارے والد جیسا دریائے ڈان
خاموشی سے بہتا ہے
اور یتیموں سے مہکتا ہے
ہمارے ڈان میں لہریں نہیں
ہمارے والدین کے آنسو ہیں‘‘
یہ کوساک گیت بہت خوبصورت ہے، مگر یہ گیت ناول کی کہانی سے میل نہیں کھاتا۔ وہ کہانی جو اس میلاخوف نامی کردار سے شروع ہوتی ہے، جو جنگ کے بعد اپنے ساتھ چھوٹے قد کی وہ ترک عورت لاتا ہے، جو سر سے پاؤں تک اپنے آپ کو بہت بڑی شال میں لپیٹ کر رکھتی تھی۔ وہ کبھی کبھار اپنی جنگلی آنکھیں ظاہر کرتی تھی۔
یہ ایک بہت شاندار ناول ہے، مگر اس ناول کا مقصد صرف یہ بات بیان کرنا ہے کہ ’’تاریخ کے دور گزرتے رہے۔ حکومتیں آتیں رہیں، جاتی رہیں۔ حکمران اور ان کے ساتھ نظام تبدیل ہوتے رہے، مگر دریائے ڈان اپنی خاموش اور بے پروا روانی سے بہتا رہا۔‘‘ شولوخوف نے یہ لکھا نہیں ہے، مگر اس نے لکھنا چاہا ہے کہ ’’دریائے ڈان کو اس بات کی پروا نہیں ہے کہ کل روس پر زار شاہی کی حکمرانی تھی اور آج سرمئی محل سرخوں کے ہاتھوں میں ہے۔‘‘ اور آج جب روس میں سوشلزم نہیں ہے، اس وقت بھی اس سرزمین پر وہ دریائے ڈان بہہ رہا ہے، جس کے بارے میں صرف کوساک لوک گیت نہیں، بلکہ پشکن سے لے کر سرگی یسینن تک اکثر روسی شعراء نے طبع آزمائی کی ہے۔ مگر کوئی بھی گیت اس کوساک نغمے جیسا نہیں ہے، جس کو پڑھ کر سکندر اعظم کے ساتھ آنے والے اس یونانی مورخ کی وہ بات یاد آجاتی ہے، جو اس نے سندھ کے تاریخی شہر سیوہن کے حوالے سے لکھی تھی۔ اس نے لکھا تھا کہ جب سندھ کے حکمران کے ساتھ سکندر اعظم کی جنگ ہو رہی تھی تب میدان جنگ سے کچھ دور ایک کسان ہل چلا رہا تھا اور اس کو اس بات میں کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ جنگ کن کے درمیان ہو رہی ہے اور اس جنگ میں جیت کس کے حصے میں آئے گی؟
یہ منظر بالکل اس منظر جیسا تھا، جو منظر پچیس جولائی کے دوسرے دن لاڑکانہ سے لے کر کراچی تک سندھ کے ہر شہر میں نظر آ رہا تھا۔ انتخابات کے دوسرے دن لوگوں میں کوئی جوش اور ولولہ نہیں تھا۔ ان کے چہروں پر نہ شکست کا غم تھا اور فتح کی خوشی۔ حالانکہ ان لوگوں نے لاکھوں کی تعداد میں ووٹ ڈالے تھے اور ان ووٹوں کی وجہ سے پیپلز پارٹی واضح اکثریت سے جیت چکی تھی۔ پیپلز پارٹی کو جتوانے والے لوگ بھی یہی تھے۔ یہ ہی تھے وہ لوگ جن سے پیپلز پارٹی اس بار بہت ڈری ہوئی تھی۔ اس بار پیپلز پارٹی والوں کو خوف تھا کہ اگر سندھ کے لوگوں نے انہیں ووٹ نہیں دیا تو وہ حکومت تو دور اپنی جان اس امکانی احتساب سے کس طرح بچا پائیں گے، جس کے سائے انتخابات کے ساتھ لمبے اور گہرے ہوتے گئے تھے۔ اس بار احتساب کے کنویں میں گری ہوئی پارٹی کو سندھ کے عوام نے سہارا دے کر باہر نکالا۔ اگر سندھ کے لوگ پیپلز پارٹی کے حق میں فیصلہ نہ کرتے تو آج پیپلز پارٹی کی قیادت روپوشی کی راہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتی۔ یہ سندھ کے لوگ تھے، جنہوں نے پیپلز پارٹی کو اذیت بھرے انجام کے حوالے کرنے کے بجائے نہ صرف کنارے کیا، بلکہ اسے اگلے پانچ برس کے لیے اقتدار کی مسند پر بیٹھنے کا مینڈیٹ بھی دیا۔ پیپلز پارٹی نے سندھ کے عوام کے ساتھ گزشتہ دس برس کے دوران کیا کیا تھا؟ اس سوال کا جواب بلاول کے اس بیان میں بھی موجود ہے جو انتخابات جیتنے کے بعد اس نے دیا تھا۔ اس نے مذکورہ بیان میں کہا تھا کہ اب ہم سندھ میں حکومت بہتر انداز سے چلائیں گے۔
سندھ کے لوگوں میں اپنی پارٹی کو جتوانے اور اسے اقتدار دلوانے کی کوئی خوشی نہیں۔ وہ خوشی اس دن بھی نظر نہیں آئی، جس دن پیپلز پارٹی کی قیادت کو اپنی کامیابی پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ سندھ کے لوگ انتخابات کے دوسرے دن دادو اور مورو کے راستوں پر پیپلز پارٹی کے پرچم لے کر جشن منانے نہیں آئے۔ سندھ کے لوگ سیوہن میں قلندر شہباز کے مزار کے سائے میں دھمال ڈالتے دکھائی نہیں دیئے۔ سندھ کے لوگ نہ فتح کی خوشی کا اظہار کرنے کے لیے جامشورو میں جمع ہوئے اور نہ میرپور خاص اور سکھر میں۔ انتخابات ہوگئے اور سندھ کا موڈ وہی رہا، جو انتخابات سے پہلا تھا۔ وہ خاموش موڈ۔ جس کو سندھی زبان میں ’’گونگا پانی‘‘ کہتے ہیں۔ اس موڈ کا اندازہ انتخابات سے قبل نہ پیپلز پارٹی کو ہو رہا تھا اور نہ اس جی ڈی اے کو جس کی سمجھ میں اب تک کچھ نہیں آ رہا۔ جس طرح سندھ میں جی ڈی اے اپنی ہار پر حیران ہے، اسی طرح سندھ میں پیپلز پارٹی اپنی جیت پر پریشان ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس بار بھی ہر بار کی طرح انتخابات میں کہیں تھوڑی اور کہیں زیادہ دھاندلی ہوئی ہے، مگر ایسا بھی نہیں کہ سندھ کے لوگوں نے پیپلز پارٹی کے خلاف ووٹ دیا ہو اور اس ووٹ کو پیپلز پارٹی کے حق میں تبدیل کروایا گیا۔ اگر ایسا ہوتا تو سندھ کے لوگ غصے کا اظہار بھی کر سکتے تھے۔ مگر آج انتخابات کو دس دن گزر چکے ہیں، مگر سندھ کے کسی شہر میں احتجاجی جلوس نہیں نکلا۔ گزشتہ دن جی ڈی اے نے سندھ کے مختلف پریس کلبوں کے سامنے احتجاج کیا تھا، مگر وہ احتجاج جماعتی تھا۔ وہ احتجاج عوامی نہیں تھا۔ سندھ میں عوامی احتجاج کہیں نہیں ہوا۔ مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ سندھ کے لوگ پیپلز پارٹی کو کامیابی سے ہمکنار کرکے بہت خوش ہیں۔ سندھ کے لوگ ایک ایسی کیفیت میں ہیں، جس کے لیے سیاست کی ڈکشنری میں کوئی مناسب لفظ نہیں۔ ایسی کیفیت کو بیان کرنے کے لیے ادبی لغت میں بہت سارے الفاظ ہوتے ہیں، مگر یہ کوئی ادبی بات نہیں۔ یہ تو مکمل سیاسی بات ہے۔ سندھ کے لوگوں نے واضح اکثریت سے پیپلز پارٹی کے وڈیروں، سیدوں اور سرداروں کو ووٹ دے کر انہیں کامیاب کیا ہے۔ سندھ کے لوگوں کے اس فیصلے کی وجہ سے قوم پرست سیاست کی حمایت کرنے والے ادیب اور صحافی ناراض بھی نہیں، مگر سندھ کے لوگوں کو ان کی ناراضی کی بھی کوئی پروا نہیں۔ ایسا لگ رہا کہ جیسے سندھ کے لوگوں کو سیاسی کمال کا بھی شوق نہیں اور سیاسی زوال کا بھی خوف نہیں۔
وہ شام کا وقت جب ہم لاڑکانہ سے آتے ہوئے دادو کراس کر رہے تھے۔ اس وقت لوگ اپنے کاموں سے واپس لوٹ رہے تھے۔ کھیرتھر پہاڑ کی دوسری طرف اور دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر سندھ کے لوگ اس طرح چل رہے تھے جس طرح دریائے سندھ کی لہریں چلتی ہیں۔ بہت آہستہ، بہت دھیرے اور بے حد تھکے ہوئے انداز کے ساتھ۔ اگر شام کے وقت سیوہن کے بہتے ہوئے دریائے سندھ کے کنارے پر بیٹھ کر اس کی خاموش روانی دیکھی جائے تو کچھ دیر کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جیسے دریائے سندھ ایک گیت گا رہا ہے۔ وہ گیت مکمل طور پر ایسا نہیں ہے جیسا گیت شولوخوف نے اپنے ناول کی ابتدا میں دیا ہے۔ کیوں کہ سندھ کا مزاج کوساک لوگوں کی طرح سرکش نہیں۔ سندھ کی تاریخ جنگ کی تاریخ نہیں ہے۔ سندھ کی تاریخ خطرناک حملوں کا جواب خطرناک انداز سے دینے کی داستان نہیں ہے۔ سندھ کی تاریخ میں بہت ساری سیاست اور بہت ساری سازش ہے، مگر اس میں وہ سرکشی نہیں، جو جنگ میں لڑنے والے سپاہیوں کے گھوڑوں میں ہوتی ہے۔ وہ گھوڑے جو زخمی ہونے کے باوجود اپنے سواروں کا ساتھ نہیں چھوڑتے۔ وہ گھوڑے جو پوری شدت کے ساتھ آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ وہ گھوڑے جن کے مناظر کو ذہن میں رکھ کر وکٹورین دور کے انگریز مصور پینٹنگز بناتے تھے۔ سندھ کی تاریخ جنگ و جدل کی تاریخ نہیں ہے۔ سندھ کی تاریخ دریائے سندھ کی طرح خاموشی سے بہتی رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس دریا نے کبھی اچانک اپنا رخ تبدیل کر دیا ہے۔ سندھ کے لوگوں کے اس موڈ کا اندازہ اس بار پیپلز پارٹی کو بھی تھا، اس لیے پیپلز پارٹی بہت پریشان تھی۔ اس بار انتخابی مہم کے دوران سندھ کے لوگوں نے پیپلز پارٹی کی جس طرح آؤ بھگت کی تھی، اس کی وجہ سے پیپلز پارٹی آخری سیٹ کے نتیجے تک پریشان تھی۔ مگر اس بار بھی سندھ نے پیپلز پارٹی کے سر سے گرائی ہوئی ٹوپی پھر سے جھاڑ کر اس کے سر پر رکھی۔ پیپلز پارٹی تو بہت خوش ہے، مگر سندھ کے لوگ بہت خاموش ہیں۔ ان کی خاموشی میں ایک گہرائی ہے۔ ایسی گہرائی جیسی گہرائی دریائے سندھ میں ہوتی ہے۔ اس گہرائی میں ایک دھیمی روانی ہے۔ ایسی روانی جیسی روانی دریائے سندھ میں ہوتی ہے۔ انتخابات کے بعد سندھ کے لوگ اپنے شہروں، گاؤں اور گھروں کے اطراف اس طرح چلتے نظر آئے، جس طرح دریائے سندھ بہتے نظر آتا ہے۔ دریائے سندھ جب سکھر سے سفر کرکے سیوہن کے قریب پہنچتا ہے، اس وقت اس کی روانی صوفی گیت جیسی ہو جاتی ہے۔ وہ گیت، اس کی وہ دھیمی دھن، اس وقت پیپلز پارٹی کو تیسری بار اقتدار پر بٹھانے والے اہلیان سندھ کے چال میں ہے۔ سندھ پر تیسری بار حکمرانی کرنے والی پیپلز پارٹی کی قیادت کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ تین کا ہندسہ منفی اور مثبت حوالے سے بہت اہم ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ دھیان سے سنے دریائے سندھ کا وہ گیت، جس کی دھن پر سندھ کی موجودہ تاریخ سفر کر رہی ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post