ابو محمد مہلبی خلیفہ معز الدولہ کا وزیر تھا۔ خلیفہ سے ملنے سے پہلے بہت ہی کسمپرسی کی زندگی گزار رہا تھا۔ تنگ دستی کے اسی دور میں وہ ایک مرتبہ سفر میں نکلا، جہاں اسے بہت زیادہ مشقت کا سامنا کرنا پڑا۔ گوشت کھانے کا خوب دل چاہ رہا تھا، مگر وہ اس کی دسترس سے باہر تھا۔ اس موقع پر فی البدیہہ اس نے چند اشعار پڑھے:
ترجمہ: سنو! کہیں موت فروخت ہورہی ہو تو (بتلاؤ! تاکہ) میں اسے خرید لوں، کیوں کہ اس زندگی میں اب کوئی بھلائی نہیں رہی۔
سنو! موت ہی خوش ذائقہ ہے، جو مجھے اس ناپسند زندگی سے چھٹکارا دلا دے گی۔
جب میں قبر کو دور سے دیکھتا ہوں تو میں آرزو کرنے لگتا ہوں کہ کاش میں بھی اس کے پڑوس میں ہوتا۔
سنو! خدا تعالیٰ کی مہربان ذات اس شریف آدمی پر رحم فرمائے، جس نے اپنے بھائی پر وفاداری کا صدقہ کیا ہو۔
اس کے دوست صوفی نے جب یہ اشعار سنے تو اس نے ایک درہم کا گوشت خریدا اور پکا کر اسے کھلایا۔ پھر دونوں ایک دوسرے کو الوداع کہہ کر رخصت ہوگئے۔ حالات نے کروٹ لی اور ابو محمد مہلبی، معزالدولہ کے زمانہ خلافت میں بغداد کا وزیر مقرر ہوا اور وہ دوست جس نے کسی زمانے میں اسی مہلبی کے لیے ایک درہم کا گوشت خریدا تھا، اس کے حالات خراب ہوگئے۔
اسے جب یہ اطلاع ملی کہ اس کا دوست بغداد کا وزیر بن گیا ہے، حالانکہ کبھی وہ گوشت نہ ملنے پر موت کی تمنا کیا کرتا تھا تو اس نے مہلبی سے ملنے کے لیے بغداد کا سفر کیا اور اسے ایک مکتوب (خط) لکھا، جس میں چند اشعار تھے:
خبردار (سنو!) وزیر سے جس پر میری جان قربان ہو کہہ دو، ایک ایسی بات جو یاد دہانی کراتی ہے ایسی بات کی، جسے وہ فراموش کر چکا ہے۔
کیا تمہیں یاد ہے (وہ وقت) جب تم نے زندگی سے تنگ آکر کہا تھا: ’’ خبردار! موت کہیں فروخت ہوتی ہو تو میں اسے خرید لوں۔‘‘
مہلبی نے جب یہ اشعار پڑھے تو وہ ماضی کی ان پریشان وادیوں میں گم ہوگیا، جس میں کبھی وہ رہا کرتا تھا، چنانچہ سخاوت کی گرمی نے اسے جھنجھوڑ ڈالا اور فی الفور اس نے اپنے ساتھی کے لیے سات سو درہم کا اعلان کیا اور رقعہ میں درج ذیل آیت لکھ کر اس کی طرف روانہ کر دیا۔
ترجمہ: ’’ جو لوگ خدا کے راستے میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ سات بالیں اگائے (اور) ہر بالی میں سو دانے ہوں، اورخدا جس کے لئے چاہتا ہے (ثواب میں) کئی گنا اضافہ کر دیتا ہے، خدا بہت وسعت والا (اور) بڑے علم والا ہے۔‘‘ (سورۃ البقرۃ: 261)
مہلبی نے اسے اپنے پاس بلوایا، انعامات سے نوازا اور ایک سرکاری عہدہ اس کے حوالے کر دیا، جس سے اس کی روزی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
(راحت پانے والے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post