ایک ہی آیت:
حضرت عثمان بن مظعونؓ کہتے ہیں کہ میں اسلام کے بارے میں متردد تھا، دل اسے قبول کرنے کیلئے آمادہ نہ ہوتا تھا، یہاں تک کہ ’’سورۃ نحل‘‘ کی یہ آیت نازل ہوئی:
ترجمہ: ’’ بے شک خدا تعالیٰ حکم دیتے ہیں عدل و احسان کا۔ اہل قرابت کو دینے کا اور روکتے ہیں بے حیائی سے، برائی سے اور سرکشی سے، نصیحت کرتے ہیں تاکہ تم یاد رکھو۔‘‘ (سورۃ النحل)
یہ آیات سنتے ہی اسلام میرے دل میں اتر گیا اور میں حضور اقدسؐ کی خدمت میں جا کر مسلمان ہو گیا، پھر میں نے اس آیت کو ولید بن مغیرہ کے سامنے پڑھا: اس نے سن کر کہا: اے میرے بھتیجے! پھر پڑھ۔ میں نے پھر پڑھی۔ اس نے کہا:
ترجمہ: ’’ بخدا یہ کلام بڑا میٹھا ہے اور بے شک اس پر تازگی ہے، اس کا اوپر کا حصہ پھلدار ہے اور نچلا سیراب کرنے والا ہے اور نہیں یہ کسی انسان کا کلام، یہ غالب ہو کر رہے گا اور کبھی بھی مغلوب نہ ہوگا۔‘‘
عرب کا مشہور حکیم اکثم بن صیفی بھی اس آیت کی فصاحت اور بلاغت سے متاثر ہو کر مسلمان ہوا تھا۔ یہ آیت باوجود کمال اختصار کے عقائد و اعمال اور اخلاق دین کی ہر نوع کو شامل ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ: خدا تعالیٰ نے ہر ایک خیر و شر کے بیان کو اس آیت میں اکٹھا کر دیا ہے۔ گویا کوئی عقیدہ، خُلق، نیت، عمل، معاملہ اچھا یا برا ایسا نہیں جو امراً و نہیاً اس کے تحت داخل نہ ہوگیا ہو۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ: قرآن میں اگر کوئی دوسری آیت نہ ہوتی تو تنہا یہی آیت ثبوت دینے کے لیے کافی تھی۔
فصاحت کو سجدہ:
ابو عبید لغوی کہتا ہے کہ ایک اعرابی نے ایک شخص کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا:
ترجمہ: ’’تو سنا دے کھول کر جو تجھ کو حکم ہوا ہے۔‘‘ (سورۃ الحجر: 94)
وہ یہ آیت سنتے ہی سجدے میں گر گیا۔ جب اس سے پوچھا کہ تم نے سجدہ کسے کیا؟ اس نے کہا: ’’اس کلام کے فصاحت کو‘‘
قدر زر زرگر بداند قدر جوہر جوہری:
حقیقت شناس لوگ اس کی حقیقتوں پر مطلع ہوئے، اہل دانش اس کے معنی و مطالب سے متاثر ہوئے اور اہل ادب و عربیت نے اس کی فصاحت و بلاغت کے آگے گھٹنے ٹیکے۔ خدا کو سجدہ انہوں نے بعد میں کیا، پہلے وہ اس کلام کے آگے سجدہ ریز ہوئے۔
ضیاع عمر کا اقرار:
ابن مقنع جو اپنے وقت کا ایک بڑا بلند پایہ ادیب گزرا ہے، اس نے دعویٰ کیا کہ قرآن بے شک فصاحت اور بلاغت کی انتہا پر ہے، لیکن میں بھی اس طرز کا کلام لکھ سکتا ہوں۔ اس نے اپنی کافی عمر اسی خیال میں ضائع کی اور اپنے خیال میں کچھ اس طرز پر لکھا بھی۔ ایک روز اسے ایک مکتب کے پاس سے گزرنے کا اتفاق ہوا۔ وہاں ایک لڑکا سورۃ ہود کی یہ آیت مبارکہ پڑھ رہا تھا:
ترجمہ: ’’اور حکم آیا اے زمین! نگل جا اپنا پانی اور اے آسمان! تھم جا اور سکھا دیا گیا پانی اور ہو چکا کام اور کشتی جودی پہاڑ پر جا ٹھہری اور حکم ہوا دوری ہے ظالم قوم کے لیے۔‘‘ (سورۃ الھود)
ابن مقنع سنتے ہی حیرت زدہ اور مدہوش ہوگیا اور گھر آکر اپنے سب لکھے کو مٹا دیا اور قسم کھا کر کہا کہ اس کلام کا کوئی معارضہ نہیں کر سکتا اور یہ کسی انسان کا کلام نہیں۔
اس آیت کی وجوہ فصاحت میں سے بعض وجوہ علامہ زمخشری نے کشاف میں اور قاضی بیضاوی نے اپنی تفسیر میں
خوب بیان کیے ہیں۔
ترجمہ: ’’حکم ہوا اے نوح! اتر سلامتی کے ساتھ ہماری طرف سے اور برکتوں کے ساتھ۔ تجھ پر اور ان قوموں پر جو تیرے ساتھ ہیں اور ایسی قومیں بھی ہوں گی جنہیں ہم کچھ وقت تک متاع دیں گے پھر انہیں پہنچے گا ہماری طرف سے عذاب دردناک۔‘‘ ( سورۃ الھود)
ان الفاظ کو پڑھیے اور الفاظ کی شکوہ اور صولت پر غور کیجیے۔ اول تو ان کا پڑھنا بھی خاصی ہمت سے ہوتا ہے اور پڑھ بھی لے تو پڑھنے والے ان الفاظ میں کھو کر رہ جاتے ہیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post