سیدنا عکاشہ بن محصنؓ جلیل القدر صحابی ہیں۔ غزوئہ بدر میں وہ لڑ رہے تھے کہ ان کے ہاتھ میں جو تلوار تھی، وہ ٹوٹ گئی۔ وہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے تو آپؐ نے انہیں ایک لکڑی عطا فرمائی… ارشاد ہوا:
’’اے عکاشہ! تم اس کے ساتھ لڑو‘‘۔
جب انہوں نے حضور نبی اکرمؐ سے وہ لکڑی اپنے ہاتھ میں لی تو لوہے کی مضبوط اور چمک دار لمبی بہترین تلوار بن گئی۔ اس تلوار کے ساتھ وہ میدان جہاد میں جا کے خوب لڑے، یہاں تک حق تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمادی۔
اس تلوار کا نام عون تھا، وہ انہیں بہت عزیز تھی، ہر وقت اسے پاس رکھتے تھے۔ حضرت عکاشہؓ ایک بار رسالت مآبؐ کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا:
’’میری امت میں سے ستّر ہزار ایسے افراد جنت میں داخل ہوں گے، جن کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتے ہوں گے‘‘۔
سیدنا عکاشہؓ نے شدت طلب میں عرض کیا ’’آقا! میرے لئے دعا فرما دیں کہ حق تعالیٰ مجھے ان میں شامل کردے‘‘۔
آپؐ کی زبان اطہر سے یہ لفظ نکلے: ’’بے شک تو بھی ان میں سے ہوگا‘‘۔
اب ایک اور انصاری صحابیؓ کے جی میں آیا کہ میں بھی دعا کرالوں تو انہوں نے بھی آپؐ سے عرض کی: ’’اے خدا کے رسول! میرے لئے دعا فرمائیں، خدا مجھے بھی ان میں شامل کردے‘‘۔
رسالت مآبؐ نے ارشاد فرمایا: ’’عکاشہؓ تم سے سبقت لے گیا اور دعا اب پوری ہو چکی‘‘۔
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post