خلاصۂ تفسیر
یہ تمہارے (ہمہ وقت) ساتھ کے (اور سامنے) رہنے والے (پیغمبر جن کے عام احوال و افعال تم کو معلوم ہیں، جن سے بشرط انصاف ان کی راستی اور حقانیت پر استدلال کرسکتے ہو، یہ پیغمبر) نہ راہ (حق) سے بھٹکے اور نہ غلط راستے ہو لئے (ضلال یہ کہ بالکل راستہ بھول کر کھڑا رہ جائے اور غوایت یہ کہ غیر راہ کو راہ سمجھ کر غلط سمت میں چلتا رہے۔ کذا فی الخازن، یعنی تم جو ان کو دعوائے نبوت و دعوت الی الاسلام میں بے راہ سمجھتے ہو، یہ بات نہیں ہے، بلکہ آپؐ نبی برحق ہیں) اور نہ آپؐ اپنی نفسیانی خواہش سے باتیں بناتے ہیں (جیسا تم لوگ کہتے ہو، بلکہ) ان کا ارشاد نری وحی ہے، جو ان پر بھیجی جاتی ہے (خواہ الفاظ کی بھی وحی ہو، جو قرآن کہلاتا ہے، خواہ صرف معافی کی ہو، جو سنت کہلاتی ہے اور خواہ وحی جزئی ہو یا کسی قاعدہ کلیہ کی وحی ہو، جس سے اجتہاد فرماتے ہوں، پس اس سے نفی اجتہاد کی نہیں ہوتی اور اصل مقصود مقام نفی ہے کفار کے اس خیال کی کہ آپؐ خدا کی طرف غلط بات کی نسبت فرماتے ہیں، آگے وحی آنے کا واسطہ بتلاتے ہیں) (جاری ہے)
Prev Post
Next Post