جسے خدا رکھے اسے کون چکھے

0

احمد زہرانی ایک چرواہے تھے، ایک دن اپنی بکریوں کے ریوڑ کے ساتھ مغرب کے وقت مندق کے شہر میں باحہ کے علاقے سے لوٹ رہے تھے، انہیں اس راستے کے متعلق تمام معلومات حاصل تھیں۔ وہ موسم پر چھائے ہوئے گہرے بادلوں سے بے پروا قطب نما کی سی تیزی سے چل رہے تھے، لیکن وہ خلاف معمول بھٹک گئے اور وہ اس راستے سے جس پر وہ چلا کرتے تھے، ہٹ کر دوسری طرف جہاں ایک کھلا ہوا کنواں تھا چلنے لگے، جس کی گہرائی 20 میٹر تھی۔
قبل اس کے کہ کوئی ان کو خبردار کرتا، انہوں نے اپنے آپ کو کنویں میں نیچے گرتا ہوا محسوس کیا۔ تو ایک ہی لمحے میں ان کے حواس روشن ہو گئے۔ انہوں نے اس اچانک غیر محسوس حملے اور زندگی کی بقا کے بارے میں سوچنے سے پہلے ہی کنویں کے اطراف میں لٹکی ہوئی نرم ٹہنیوں کو پکڑ لیا، لیکن وہ ان کے بھاری جسم کو سہارا نہ دے سکیں اور وہ دوبارہ نیچے گر گئے۔ اگر حق تعالیٰ کی رحمت ان کے ساتھ نہ ہوتی تو وہ کنویں کی گہرائی میں پہنچ جاتے، لیکن انہیں لوہے کی سلاخیں مل گئیں، جن پر وہ پورے تین دن تک سہارا لیے رہے۔ اسی دوران بکریوں کا ریوڑ جب ان کے بغیر گھر پہنچ گیا تو ان کے گھر والے اور پڑوسی ان کی تلاش کرنے میں ہر طرف نکل گئے، یہاں تک کہ ان کی تلاش کرنے میں ان لوگوں سے امید کا دامن چھوٹ گیا۔
احمد زہرانی کہتے ہیں: ’’جب میرے پائوں پھسلے اور میں گرا تو میں نے شروع میں سوچا کہ وہ ایک چھوٹا کنواں ہوگا، جس میں جانے کا میں عادی ہوں۔‘‘ اور چونکہ گہرے بادل مجھے کچھ دیکھنے کا موقع نہیں دے رہے تھے تو میں نے اپنے پائوں ڈھیلے کئے تاکہ اور زیادہ نیچے ہو جائیں تو میں کنویں میں گر گیا۔ میرا گرنا درجہ بدرجہ تھا، میرے گرنے کے دوران میرا سر کنویں کے اطراف سے ٹکرایا، لیکن میرے ہاتھ لگاتار کسی ایسی چیز کو تلاش کررہے تھے، جس سے میں سہارا لے سکوں، یہاں تک کہ میں نے کچھ چھوٹی ٹہنیاں پائیں تو میں نے ان سے ایسے سہارا لے لیا، جیسا کہ ڈوبنے والا کسی تختے سے سہارا لیتا ہے۔ پھر دوسری مرتبہ گرنے کے دوران مجھے بہت سی چوٹیں لگیں… یہاں تک کہ میں نے لوہے کی سلاخ کو پکڑ لیا۔
میں پورے تین دن کنویں میں بغیر سوئے لٹکا رہا، کیونکہ تھوڑی سی اونگھ بھی میری زندگی کو ختم کر سکتی تھی، چنانچہ میں مایوس نہ ہوا۔ میں نے اپنا دایاں پائوں مٹی کی دیوار کے ایک طرف رکھا اور بایاں پائوں دوسری طرف اور نکلنے کی کوشش کرنے لگا، لیکن فاصلہ بہت زیادہ تھا تو میں جس چیز پر تھا، اسی پر ٹھہرنے کو ترجیح دی۔ میں نے سورج طلوع ہونے کے وقت ہی اس امید پر اپنی آواز نکالی کہ شاید کوئی اسے سن لے، تو میں مسلسل چیختا اور روتا رہا، لیکن میری چیخیں مجھ تک واپس ناکام لوٹتی رہیں۔ اس علاقے میں جس میں کنواں تھا، چلنے والوں سے زیادہ گاڑیاں گزر رہی تھیں۔
چوتھے دن کے آغاز کے ساتھ ہی گھبراہٹ، تھکن اور مایوسی آخری مرحلے تک پہنچ گئی تھی کہ میں نے اچانک بچوں کے دوڑنے اور ان کے آپس میں چیخنے کی آوازیں سنیں، ایسا لگ رہا تھا کہ وہ مدرسے جا رہے ہوں۔میرے اندر جتنی طاقت باقی تھی، اسے مجتمع کرکے میں نے آواز نکالی تو میں نے بھاگتے ہوئے ان کے قدموں کی آواز سنی، وہ بچے بار بار کہہ رہے تھے کہ ’’کنویں میں جن ہے، کنویں میں جن ہے‘‘ ان بچوں میں جو سب سے بڑا تھا، وہ بہت بہادر تھا، وہ کنویں کے قریب آیا اور اس میں جھانکا تو وہ اپنے دوستوں کے ساتھ تیزی سے گیا، تاکہ اس کو جو کوئی بھی راستے میں ملے، اسے حالات سے آگاہ کرے۔ چنانچہ شہر کی مدد کرنے والی جماعت (ریسکیو ٹیم) کو اطلاع پورے طور پر پہنچ گئی تو ان لوگوں نے رسی ڈال کر آخری لمحات میں مجھے نکالا۔ شدید تھکن، غیر معمولی چوٹوں اور ہاتھوں کے چھل جانے کی وجہ سے ان لوگوں نے مجھے کلینک میں ابتدائی طبی امداد کے لیے داخل کرایا، طبی امداد سے فارغ کرنے کے بعد میں اپنے گھر لوٹ کر سو گیا اور پورے دو دن میں (خدا کا شکر) صحت یاب ہو گیا۔ (راحت پانے والے، تصنیف ابراہیم الحازمی)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More