ڈاکٹر صابر حسین خان
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم لوگ کتابوں سے کیوں دور ہوتے جا رہے ہیں؟ درحقیقت یہ سوال میں نے خود سے کیا تھا۔ پھر سوچا کیوں نہ یہ سوال آپ سے بھی کر ڈالوں۔ دراصل اِس وقت کرنے کا کوئی خاص کام تھا نہیں اور بوریت و بیزاری نے جونہی دستک دینا شروع کی تو خیال کِسی کتاب کو اُٹھا کر ورق گردانی کا آیا۔ مگر پھر دوسرے خیال نے فوراً پہلے خیال کو یہ کہہ کر ذہن سے نکال دیا کو کون سی کتاب اور پھر جو بھی کتاب شروع کی جائے گی تو اُسے پورا کرنے کو دِل کہے گا اور پھر کچھ ہی دیر میں کوئی اور کام کوئی اور مصروفیت سامنے آجائے گی۔ تو کتاب پڑھنے کا ماحول نہیں بن پائے گا۔
یہ خیال بہت عرصے سے کوئی کتاب نہیں پڑھنے دے رہا ہے۔ مختلف حیلوں بہانوں سے مجھ کو کتابوں سے دور رکھ رہا ہے۔ حالانکہ کتابوں کا ڈھیر سرھانے رکھا ہے کہ جونہی فرصت اور فراغت ملے تو ایک کے بعد ایک کتاب نکال کر پڑھی جائے۔ نہ لمبی فرصت مل پا رہی ہے، نہ اتنی فراغت کہ چار چھ گھنٹے تک مستقل، نان اسٹاپ، کتابوں کی دنیا میںخود کو محو کر لیا جائے۔ جانے کیا ہوتا جا رہا ہے۔ پہلے تو ایسا نہیں ہوتا تھا۔ پہلے تو اور زیادہ مصروفیات ہوتی تھیں، زیادہ لوگ آس پاس ہوتے تھے اور زیادہ کام ہوتے تھے۔ اِن وجوہات سے پیچھا چُھڑانا دشوار لگ رہا ہے۔ ہو سکتا ہے آپ سب سے اپنے دِل کی یہ باتیں Share کرکے ان بلاوجہ کی بے بنیاد وجوہات سے چھٹکارا مل جائے اور پڑھنے کا موسم، دِل و دماغ کو دوبارہ اپنے سائے میں لے لے۔
پہلی وجہ تو پہلے بھی آپ کے سامنے کسی اور حوالے سے لائی تھی اور دیگر چیزوں کی طرح ہمارے وقت سے بھی برکت اُٹھالی گئی ہے۔ حالانکہ وہی وقت ہے۔ اُسی طرح کی مصروفیات ہیں۔ لیکن چونکہ ہم نے رب تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چھوڑ دیا ہے اور ہر بات میں شکایت کرنے کی عادت اپنا لی ہے تو ہمارے وقت کو بھی ہم پرتنگ کردیا گیا ہے۔ ایسے ایسے بلا وجہ کے کام ہمارے سر پر آچانک آجاتے ہیں۔ جوروٹین اور شیڈول سے ہٹ کر ہوتے ہیں اور ہمارے وقت کو اسفنج بن کر پینے اور جذب کرنے لگتے ہیں۔ لا محالہ ہمیں پھر ضروری کے کاموں کا وقت ہی نہیں مل پاتا۔ مستقل کتابیں پڑھتے رہنے کا کام چونکہ اور کاموں میں سب سے زیادہ اہم کام ہوتا ہے تو سب سے کاری ضرب اُسی پر لگتی ہے اور ہم سب سے پہلے کتابوں کو تہہ کرکے رکھ دیتے ہیں۔
دوسری زیادہ شدید زیادہ خطرناک وجہ نے تو مجھ سمیت لگ بھگ آدھی سے زیادہ دُنیا کو کسی وبا کی شکل میں اپنے لپیٹے میں لیا ہوا ہے اور دور دور تک اِس وبا کا کوئی علاج دکھائی دیتا ہے نہ کوئی اس کے علاج کے حوالے سے سنجیدہ ہے اور نہ ہی کوئی خود کو اِس سے نجات دلانے پر راضی نظر آتا ہے۔ مٹھی بھر موبائل فون نے دنیا بھر کے چھوٹے بڑے ہر دل اور دماغ پر قبضہ کرلیا ہے۔ ایسے میں کیسے ممکن ہے کہ کوئی کاغذ کی کتاب اٹھائے اور پڑھے۔ جو بھی کچھ پڑھنا ہے وہ سب ایک سیکنڈ میں نظر کے سامنے آجاتا ہے۔ کروڑوں کتابیں جیب میں ہمہ وقت موجود۔ یہ اطمینان کوئی ایک کتاب بھی سکون سے پڑھنے نہیں دیتا اور پھر جب ہر سیکنڈ اقوال زرّین اور بڑے بڑے فلسفے اور نظریئے چار جملوں میں Sum up ہو کر دو سیکنڈ میں پڑھے جاسکتے ہیں اور Post کئے جا رہے ہیں تو موٹی موٹی کتابوں کو کھولنے کی بھی کیا ضرورت۔
اور سونے پر سہاگہ، جب دیکھنے اور سننے کو اتنا کچھ خوبصورت اور رنگین مل رہا ہے تو پڑھنے کا کیا فائدہ۔ ایک سے بڑھ کر ایک پروگرام، خون گرما دینے والی بحث، تبصرے اور باتوں باتوں میں بڑی بڑی جنگیں جیتے جانے کے دعوے۔ یہ سب ذہن کھولنے کیلئے کافی ہیں اور یہ بھی نہیں تو مصالحہ دار ڈرامے اور فلمیں۔ ان کے سوا پھر اور کیا چاہئے کسی کو۔ دل کو بہلانے کیلئے یہ جواز کافی ہے کہ کتابوں کی موجودہ شکل، جیتی جاگتی، چلتی پھرتی، بولتی سناتی کہانیوں نے لے لی ہے۔ ہزار دو ہزار کی ایک کتاب کیوں لی جائے۔ ماہانہ چار سو کا کیبل اور پانچ سو کا انٹرنیٹ بہت نہیں ہے کیا آج کل کی ’’بولتی ہوئی کتابیں‘‘ پڑھنے یعنی دیکھنے کو۔ بات سچی بھی ہے۔ کم قیمت پر جب کسی شے کی فراوانی ہو اور اُس کے حصول میں آسانی ہو اور اُس کے استعمال میں نہ کوئی دشواری ہو نہ کوئی رکاوٹ۔ تو لامحالہ اُسی کی جانب سب کی توجہ جائے گی بھی اور وہی شے اگر Verstile اور Multi dimensional بھی ہو تو زیادہ سے زیادہ لوگوں کی دلچسپی کی اپنی طرف برقرار بھی رکھے گی۔
سچ بات یہ ہے کہ میرے پڑھنے کا سلسلہ اور Rhythm بھی 21 ویں صدی کے معجزے یعنی انٹرنیٹ نے روکا اور توڑا ہے۔ ٹی وی اور اس پر پیش کردہ ہر طرح کے ڈراموں بشمول Live Talk Shows اور حالت حاضرہ کو اپنی باتوں سے بدلنے والے اداکاروں سے تو کوئی رغبت نہیں۔ لیکن انگریزی زبان کے کچھ خاص الخاص ڈراموں کے سیزن اتنے خوبصورت ہیں، اپنی کہانی اور خیال کے حوالے سے کہ اُن کو دیکھنے، سمجھنے اور پرکھنے میں فارغ وقت کا بڑا حصہ صرف ہوتا رہا ہے اور ہو جاتا ہے۔ اردو ادب اور انگریزی ادب کے پڑھنے کے بعد بصارتی و صوتی جدید انگزیزی ادب سے بھی بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا اور مل رہا ہے اور سوئیٹ ڈش کے طور پر تفریح الگ۔ گزشتہ کئی برسوں میں اَن گنت نئے خیال، نئی Theories نئے Ideas نئے اُفق، نئے Dimensions سے آگاہی ہوئی اور ان گنت پُرانی باتوں میں نئے رنگوں کی آمیزش ہوئی۔
اور تمام باتوں اور چیزوں کی طرح ادب، تخیل اور جیتے جی خوابوں کی جہتوں کے حوالے سے بھی ہم لوگ باقی دنیا سے دو سو سال پیچھے چل رہے ہیں۔ فلم انڈسٹری کے آغاز میں چپ فلموں کے بعد جب آواز والی فلمیں بننا شروع ہوئی تھیں۔ اُس وقت 25 – 30 سال تک انگریزی فلموں میں رومانس اور گانے ہوا کرتے تھے۔ لیکن پھر بتدریج گانے ختم ہوتے گئے اور دنیا کے ہر موضوع پر انگریزی اور دیگر یوروپی زبانوں میں ڈرامے اور فلمیں بننے لگیں۔ موضوعات کے تنوّع اور تخیّل کی اڑان نے ایسے ایسے شاہکار ڈرامے اور فلمیں تخلیق کروالیں۔ جو صحیح معنوں میں جدید بصارتی وصوتی ادب میں Mile Stones کا درجہ رکھتی ہیں اور Classics کے زُمرے میں آتی ہیں۔
تخلیقی ادب خواہ تحریری ہو یا اب بصارتی و صوتی شکل میں پیدا ہو رہا ہو، ہر دو صورتوں میں لِکھنے والے کی Wisdom اور Vision کو Reflect کرتا ہے۔ ادیب اور لکھاری کی زبان کی ندرت، اُس کی تہذیب و ثقافت، اُس کے علاقے کا رہن سہن اور اُس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے، جینے مرنے والے لوگوں کی سوچ، شخصیت اور نفسیات، یہ سب اُس کی تحریر کو تصویر کی شکل دیتے ہیں اور اُس تصویر میں رنگ بھرتے ہیں۔
ادب کی ابتدائی شکل کٹھ پتلی تماشوں اور اشاروں کی تھی۔ جوں جوں لفظ اور زبان کے سفر نے وسعت پائی، داستان گوئی اور سینہ بہ سینہ قصہ کہانی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ساتھ ساتھ لکڑی اور پتھر کے ٹکڑوںپر تصویر کشی جاری رہی۔ دو ہزار سال تک اپنے جوبن پر رہا۔ لیکن اب اکیسویں صدی کے آغاز سے تحریری ادب نے کروٹ بدلی ہے۔
تحریری ادب کے بڑے بڑے نامور لکھاری چاہنے نہ چاہنے کے باوجود بصارتی و صوتی کہانیوں، ڈراموں اور فلموں کے اسکرپٹ اور ڈائیلاگ لکھنے پر مجبور ہوگئے ہیں اور یا پھر ہر خوبصورت ناول، کہانی اور کتاب کی ڈرامائی اور فلمی صورت سامنے آرہی ہے۔ اردو زبان کے علاوہ انگریزی، فرنچ، ڈچ اور کئی دیگر زبانوں کے ادیب اب جو جو بھی ادب تخلیق کررہے ہیں، وہ اِسی نیت اور اِسی شکل میں کر رہے ہیں کہ جلد یا بدیر اُن کی تخلیق بھی کتاب سے Digital Video میں باآسانی منتقل ہو سکے۔
ادب تحریری ہو یاDigital ، جب تک اُس کو تخلیق کرنے والے کا پورا وجود اپنی کہانیوں کے ساتھ سفر نہیں کرتا، اپنے لکھے ہوئے لفظوں میں اپنے دِل، ذہن اور اپنی روح کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے نہیں ڈالتا اور اپنے کرداروں کے اندر اپنی شخصیت کی شیرینی نہیں گھولتا، اُس وقت تک اُس کی تخلیق میں جان، حرکت اور توانائی پیدا نہیں ہو پاتی۔
مغرب میں بھی کتابوں اور تحریری ادب کی اشاعت و فروخت میں کمی آئی ہے، لیکن وہاں کے تخلیق کار، الیکٹرونک اور ڈیجیٹل میڈیا میں اپنی تخلیقات کے ذریعے اپنے اپنے علاقوں کے رہنے والوںکی ذہن سازی بھی کر رہے ہیں اور اُن کیلئے متنوع تفریح کے رنگا رنگ ذرائع بھی فراہم کررہے ہیں۔ گو وہاں بھی اعلیٰ ادب کا تناسب بہت ہی کم رہ گیا ہے۔ لیکن اہلِ مغرب کے فِکشن میں نہ صرف تحریروں میں طاقت ہوتی ہے، بلکہ اعلیٰ ٹیکنالوجی کا استعمال اُن کی فلموں اور اُن کے ڈراموں کو اور زیادہ جاذب نظر بنا دیتا ہے۔
بد قسمتی سے ہمارے یہاں کتاب بھی دم توڑ چکی ہے، اہلِ کتاب بھی ہم سے روٹھ چکے ہیں اور پڑھنے کی روح بھی رخصت ہو چکی ہے۔ اور تو اور جدید دور کے ڈیجیٹل اور الیکٹرونک میڈیا کے تقاضوں کو مدنطر رکھتے ہوئے بھی دِل، دماغ اور روح کے پوشیدہ گوشوں کو Appeal کرنے کے حوالے سے بھی کسی قسم کا ادب تخلیق نہیں کیا جا رہا۔ محض اوپری سطح، وقت گزاری اور کمرشل بنیادوں کے تحت انتہائی سطحی رومانس اور گھریلو سیاست کے مرکزی خیال پر کہانیاں لکھی اور پیش کی جا رہی ہیں۔ جِس کی وجہ سے آج نہ قاری ہے، نہ سامع، نہ ناظر۔ کتاب، کہانی، ڈرامہ، فلم، کیا تحریری شکل، کیا تصویری صورت، ہر تخلیق Disposable بن گئی ہے اور اِس رجحان کو پروان چڑھانے میں بہت بڑا ہاتھ ایسے لکھاریوں اور صحافیوں کا ہے جو پُرانے زمانے کے بادشاہوں کے درباریوں کی طرح روز کے روز ایسے موضوعات اور ایسے Issues کو زیر بحث لالا کر لوگوں کو ایسے عبث بحث و مباحثے کے نشے کا شکار کر چکے ہیں۔ جِن کا حل اِن کو پیدا کرنے والوں کے پاس بھی نہیں ہے۔
اور ہماری پوری قوم دل و جان سے اپنی تمام تر جذباتی و ذہنی توانائی کے ساتھ ایسی تحریروں کو پڑھنے اور ایسے پروگرامز کو دیکھتے کی لت میں مبتلا ہو چکی ہے، جو تفریح و ذہنی نشوونما فراہم کرنا تو درکنار، اُلٹا لوگوں کو ذہنی و نفسیاتی امراض اور اعصابی دبائو و ڈپریشن میں مبتلا کر رہے ہیں، کیونکہ ان لاحاصل تبصروں، تجزیوں، گفتگوئوںکی بار بار کی تکرار کے باوجود جب ہمارے مسائل جوں کے توں برقرار رہتے ہیں اور اگلے دن سو کر اٹھنے کے بعد ان میں انڈے بچے بھی پیدا ہو چکے ہوتے ہیں تو ان تحریروں اور پروگرامز کے شوقین اور عادی افراد غم، غصے، احساس محرومی اور ذہنی انتشار کا شکار ہونے لگتے ہیں اور یہ چیزیں بڑھتے بڑھتے طرح طرح کے جسمانی اور ذہنی عارضے پیدا کر ڈالتی ہیں۔
ادب کا بنیادی کام اور اصل Role معاشرے کے ذہنی خلفشار اور جذباتی انتشار کو فلٹر کرنا اور اسے ختم کرنا ہوتا ہے۔ ذہن سازی کرنا ہوتا ہے۔ ذہنی و قلبی تفریح کے ایسے رنگا رنگ و تنوّع Sources فراہم کرنا ہوتا ہے جو لوگوں کے اعصابی دبائو یا اسٹریس اور ڈپریشن کو کم اور ختم کرکے اُن کو Recharge کر سکے۔ تروتازہ اور توانا کر سکے۔
جو ادب، خواہ مغربی ہو یا مشرقی، تحریری ہو یا ڈیجیٹل اِن معیارات پر پورا نہیں اترتا۔ اس لئے وہ جلد ہی فراموش کردیا جاتا ہے۔ کبھی کبھی محض نام بچتا ہے اور وہ بھی اسلوب، اندازِ تحریر اور کسی چُبھتے ہوئے مرکزی خیال کی وجہ سے۔ ایسے ادب کو دوام نہیں مل پاتا۔ وقتی تالیاں تو ضرور سننے کو مل جاتی ہیں۔ گھنٹے دو گھنٹے کیلئے Ratings اور Viewerships کے نمبرز میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ لیکن رات کے جاتے ہی بات بھی چلی جاتی ہے اور اگلا دن پھر خالی اور خولی ہو جاتا ہے۔
کسی بھی معاشرے میں تحریر اور تخلیق کو جب ڈسپوزیبل ٹشو پیپرز کے طور پر سمجھا اور برتا جانے لگتا ہے تو وہ معاشرہ، بالکل ہمارے معاشرے کی طرح جذباتی خلفشار، ذہنی انتشار اور انارکی کا شکار ہو جاتا ہے۔
مجھے تو یہ مضمون لکھتے لکھتے خدا کے کرم سے John Grishon کے نئے ناول Camino Island کو ختم کرنے کا موقع مل گیا۔ اس بہانے پڑھنے کا موسم پھر پلٹ آیا اور اِس وقت دو اور کتابیں سامنے رکھی للچا رہی ہیں۔ اگر آپ بھی اس مضمون کو پڑھنے کے بعد کسی بھی طرح کے ادب کی جانب راغب ہو جاتے ہیں اور آپ کے ہاتھ میں بھی کوئی کتاب آجاتی ہے تو یقین کیجئے آپ بھی معاشرے سے خلفشار، انتشار اور انارکی کو کم کرنے کا سبب بن سکیں گے اور آپ کی روح کو وہ سکون مل جائے گا، جس کی آپ کو برسوں سے تلاش تھی۔