مسعود ابدالی
غزہ کئی برسوں سے کھلی چھت کا جیل خانہ بنا ہوا ہے، جس کے زمینی راستوں کو اسرائیل اور مصر نے بند کر رکھا ہے تو بحیرئہ روم کی اسرائیلی ناکہ بندی نے اس کا سمند سے راستہ مسدود کردیا ہے۔ اہل غزہ کیلئے پابندیوں کو بتدریج سخت سے سخت تر کیا جا رہا ہے۔ دو سال پہلے بجلی کی فراہمی 6 گھنٹہ روزانہ کر دی گئی۔ اس سال سے اہل غزہ کو صرف ایک گھنٹہ بجلی فراہم کی جاتی ہے۔ پانی بھی بند ہے۔ پاور جنریٹر، دوائیں، جراحی کے آلات، نصابی کتابیں، کاپیاں اور بچوں کے کھلونوں کی درآمد ممنوع ہے۔ ڈیزل، مٹی کا تیل،دیا سلائی یہاں لانے کی اجازت نہیں۔
گزشتہ روز اسرائیلی پارلیمنٹ کے عرب رکن جمال الخدری نے انکشاف کیا کہ یکم اگست سے نو نہالوں کیلئے دودھ، بوتل، چسنیاں، بچوں کے صابن، شیمپو اور ڈائپرز بھی غزہ لانے پر پابندی لگا دی گئی۔ دوسری جانب اسرائیل امدادی سامان لے کر غزہ پہنچنے کی کوشش کرنے والی ہر ٹیم کا راستہ بھی روکتا ہے۔ جمعہ کی شام غزہ جانے والی ایک امدادی کشتی اسرائیلیوں نے روک لی۔ ڈنمارک میں آزادی کارواں کے نام سے 4 کشتیوں پر مشتمل ایک قافلہ تشکیل دیا گیا تھا اور اس سلسلے میں امددای سامان سے لدی پہلی سویڈن پرچم بردار کشتی پر 12 یورپی رضاکار بھی سوار تھے۔ اس کشتی کو اسرائیلی بحریہ نے روک کر اشدود کی بندرگاہ پہنچا دیا۔ اس سے پہلے گزشتہ ہفتے اٹلی سے غزہ کی طرف روانہ ہونے والی ایک کشتی کو اسرائیل نے روک لیا تھا، جس پر سوار 23 رضاکاروں میں ترک، افریقی، ملائی، عرب اور یورپی مسلمانوں کے ساتھ کچھ سلیم الفطرت اسرائیلی یہودی بھی شامل تھے۔ ترک رضاکاروں نے اس کشتی کے ذریعے 15000 ڈالر کی ادویات غزہ بھیجی تھیں۔ گرفتار ہونے والوں رضاکاروں نے کہا کہ ہمیں یقین تھا کہ اسرائیلی اور جنرل السیسی کی بحریہ اس کشتی کو ضرور پکڑے گی، لیکن ہم نے دنیا کو بتانے کیلئے یہ قدم اٹھایا ہے کہ غزہ میں محصور 18 لاکھ فلسطینیوں کو بھوک اور وبائی امراض سے بچانے کیلئے ساری دنیا کو قدم اٹھانا چاہئے۔ اس لئے کہ اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی ادارے اس معاملے میں بالکل مفلوج نظر آرہے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 2010ء میں ترکوں نے امدادی سامان سے لدی کشتیوں کا ایک قافلہ غزہ بھیجا تھا، جس پر اسرائیلی بحریہ کے حملے میں 10 ترک رضاکار شہید ہوگئے تھے۔ قافلے کی ایک کشتی پر پاکستان کے مشہور ٹیلی ویژن میزبان جناب طلعت حسین بھی سوار تھے۔ ڈنمارک میں آزادی کارواں کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کی جانب کشتیوں کی روانگی کی سلسلہ جاری رکھیں گے کہ یہ ہمارے ضمیر کی آواز ہے اور غزہ میں محصور 18 لاکھ فلسطینیوں کو بھوک اور وبائی امراض سے بچانے کیلئے ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔ اسرائیل اور جنرل السیسی نے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کر رکھی ہے، جس سے 18 لاکھ فلسطینی بھوک اور بیماری کا شکار ہیں۔
دوسری جانب اسرائیلی فوج کی جانب سے اہل غزہ کا قتل عام بھی جاری ہے۔ جمعہ کے روز غزہ میں ہزاروں لوگوں نے آہنی باڑھ کے سامنے مظاہرہ کیا۔ فوج کی فائرنگ سے ایک 17 سالہ بچے سمیت 2 افراد جاں بحق ہوگئے۔ ڈرون طیاروں کی فائرنگ سے 220 افراد زخمی ہیں، جن میں سے 90 کو Butterfly گولیوں سے نشانہ بنایا گیا اور ان سب لوگوں کے تاعمر اپاہج ہونے کا خطرہ ہے۔ 30 مارچ سے شروع ہونے والے مظاہروں میں اب تک 155 فلسطینی مارے جاچکے ہیں، جبکہ ایک لاکھ 60 ہزار فلسطینی شدید زخمی ہیں۔ 1948ء میں اسرائیلیوں نے مسلح ڈکیتی کے ذریعے فلسطینیوں کی 2000 ہیکٹر اراضی ہتھیائی تھی، اس کی یاد میں غزہ کے باسی شہر کے گرد لگی آہنی باڑھ کے سامنے ہر جمعہ کو مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھا کر اس عزم کے ساتھ واپس آجاتے ہیں کہ ’’اگلے جمعہ کو ہم پھر آئیں گے۔‘‘
دریں اثنا حماس اور اسرائیل میں امن سمجھوتے کی بھی اطلاعات ہیں۔ الجزیرہ ٹیلی ویژن کے مطابق اسرائیل اور حماس غزہ میں قیام امن کیلئے ایک معاہدے پر رضامند ہوگئے ہیں۔ اس سے پہلے اسرائیل نے حماس کو دہشت گرد قرار دے کر اس سے بات چیت کوخارج از امکان قرار دیا تھا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ابتدائی گفتگو حماس، مصر اور اقوام متحدہ کے درمیان جمعہ کو ہوئی، جس پر غور کرنے کیلئے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اپنی کابینہ کا ہنگامی اجلاس اتوار کو طلب کیا۔ سبت کی پابندیوں کی بنا ہر ہفتے کے دن امور ریاست سے متعلق کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ اسی بنا پر اسرائیلی وزیر اعظم نے اپنا دورئہ کولمبیا ملتوی کر دیا۔ قانونی پیچیدگیاں دور کرنے کی غرض سے اسرائیل نے ایک فلسطینی مذاکرات کار صالح عروری کا نام دہشت گردوں کی فہرست سے نکال دیا ہے۔ جناب عروری مذاکرات میں حماس کے آٹھ رکنی وفد کی قیادت کر رہے ہیں۔ ستم ظریفی کہ خلیجی ممالک حماس اسرائیل معاہدے کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حماس ایک دہشت گرد تنظیم ہے، جس سے براہ راست مذاکرات اسے تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔ ٭